شکیل بدایونی / قتیل شفائی / پیر نصیر الدین نصیر / مخمور دہلوی
...............
شکیل بدایونی
نہ ملتا غم تو بربادی کے افسانے کہاں جاتے
اگر دنیا چمن ہوتی تو ویرانے کہاں جاتے
چلو اچھا ہُوا اپنوں میں کوئی غیر تو نکلا
اگر ہوتے سب ہی اپنے تو بیگانے کہاں جاتے
دعائیں دو محبت ہم نے مِٹ کر تم کو سکھا دی
نہ جلتی شمع محفل میں تو پروانے کہاں جاتے
تمہی نے غم کی دولت دی بڑا احسان فرمایا
زمانے بھر کے آگے ہاتھ پھیلانے کہاں جاتے
.....
قتیل شفائی
تمہاری انجمن سے اُٹھ کے دیوانے کہاں جاتے
جو وابستہ ہوئے تم سے وہ افسانے کہاں جاتے
نکل کر دیر و کعبہ سے اگر ملتا نہ مے خانہ
تو ٹھکرائے ہوئے انساں خدا جانے کہاں جاتے
تمہاری بے رخی نے لاج رکھ لی بادہ خانے کی
تم آنکھوں سے پلا دیتے تو پیمانے کہاں جاتے
چلو اچھا ہوا، کام آ گئی دیوانگی اپنی
وگرنہ ہم زمانے بھر کو سمجھانے کہاں جاتے
قتیلؔ اپنا مقدر غم سے بیگانہ اگر ہوتا
تو پھر اپنے پرائے ہم سے پہچانے کہاں جاتے
.....
مخمور دہلوی
یہ تجھ سے آشنا دنیا سے بیگانے کہاں جاتے
ترے کوچے سے اٹھتے بھی تو دیوانے کہاں جاتے
قفس میں بھی مجھے صیاد کے ہاتھوں سے ملتے ہیں
مری تقدیر کے لکھے ہوئے دانے کہاں جاتے
نہ چھوڑا ضبط نے دامن نہیں تو تیرے سودائی
ہجوم غم سے گھبرا کر خدا جانے کہاں جاتے
میں اپنے آنسوؤں کو کیسے دامن میں چھپا لیتا
جو پلکوں تک چلے آئے وہ افسانے کہاں جاتے
تمہارے نام سے منسوب ہو جاتے ہیں دیوانے
یہ اپنے ہوش میں ہوتے تو پہچانے کہاں جاتے
اگر کوئی حریم ناز کے پردے اٹھا دیتا
تو پھر کعبہ کہاں رہتا صنم خانے کہاں جاتے
نہیں تھا مستحق مخمورؔ رندوں کے سوا کوئی
نہ ہوتے ہم تو پھر لبریز پیمانے کہاں جاتے
.....
پیر نصیر الدین نصیر
بہلتے کس جگہ ، جی اپنا بہلانے کہاں جاتے
تری چوکھٹ سے اُٹھ کر تیرے دیوانے کہاں جاتے
خدا کا شکر ، شمع رُخ لیے آۓ وہ محفل میں
جو پردے میں چُھپے رہتے تو پروانے کہاں جاتے
اگر ہوتی نہ شامل رسمِ دنیا میں یہ زحمت بھی
کسی نے کس کی میت لوگ دفنانے کہاں جاتے
خدا آباد رکھے سلسلہ اِس تیری نسبت کا
وگرنہ ہم بھری دنیا میں پہچانے کہاں جاتے
نصیرؔ اچھا ہوا در مل گیا اُن کا ہمیں ، ورنہ
کہاں رُکتے ، کہاں تھمتے ، خدا جانے کہاں جاتے
Comments
Post a Comment