Skip to main content

پاکستان ریلوے، لوٹے اور عمران خان

ایک شخص نے دوران سفر محکمہ ریلوے کے شکایتی مرکز کو ٹوئیٹ کیا:

’’ریل کے اندر باقی سہولیات  تو چلیں جیسی بھی ہیں ہم گزارا کر ہی لیتے ہیں لیکن برائے مہربانی باتھ روموں میں رکھے لوٹوں کی زنجیروں کی لمبائی کم از کم اتنی تو رکھیں کہ لوٹا  ’’منزلِ مقصود‘‘ تک با آسانی پنہچ جائے۔‘‘

ریلوے کی طرف سے جواب آیا:

’’زنجیر سے لوٹا بندھا ہے آپ نہیں۔ اگر تکلیف ہے تو اپنی ’منزلِ مقصود‘ کو کھسکا کر لوٹے کے قریب کر لیں‘‘۔

چلے تو تھےنیا پاکستان بنانے مگر آدھے راستے میں  پتہ چلا کہ لوٹوں کے بغیر وزیراعظم بننا ممکن نہیں تو اب اپنی ’’منزلِ مقصود‘‘ کو کھسکا کر ان لوٹوں کے قریب لے گئے ہیں جو ’’الیکٹبلز‘‘ کے نام سے جانے جاتے  ہیں۔

تو دوستو! یہ ہے وہ مجبوری جس کا لوگ مسلسل مذاق اڑا رہے ہیں۔ حالانکہ قبر کا حال تو مردہ ہی بہتر جانتا ہے اور باتھ روم کا حال ۔۔۔۔ اس کے اندر بیٹھا ہوا انسان۔

Comments

Popular posts from this blog

سندھی غزل

غزل__________ استاد بخاري شوق تنهنجو شئي ئي ٻي بنجي ويو دل لڳي مان ، زندگي بنجي ويو چنڊ تارا ، گل سهي سودا نه ڏين حسن تنهنجو هڪ هٽي بنجي ويو چؤطرف چمڪار تنهنجي سونهن جا چاھه منهنجو چؤدڳي بنجي ويو سونهن سان جيڪو جڙيو سو جنتي جو ٿڙيو سو دوزخي بنجي ويو قرب ۾ ڪؤڙو ، ڪسارو هي سمو شاھه جي وائي مٺي بنجي ويو منهنجو سينو آ سدوري سنڌڙي تنهنجو سِرُ سنڌو ندي بنجي ويو عاشقن آڏو وڏو هيڏو پهاڙ ڌوڙ جي آ خر دڙي بنجي ويو جنهن کي تون”استاد“ووڙيندو وتين سو ته تنهنجي شاعري بنجي ویو ترجمہ شوق تمہارہ کوئی چیز ہی اور بن گیا دل لگی سے زندگی بن گیا چاند تارے پھول کوئی سودا نہیں دیتے حسن تمہارا ایک دوکاں بن گیا چاروں طرف نور ہے تمہارے حسن کا پیار میرا چاندنی بن گیا حسن سے جو جڑا وہ جنتی جو بہکا وہ دوزخی بن گیا محبت میں یہ جھوٹ بھی شاھ (عبدالطیف بھٹائی) کا گیت بن گیا میری چھاتی جیسے سندھ کی دھرتی سر تمہارا دریائے سندھ بن گیا عاشقوں کے آگے اتنا بڑا پہاڑ بھی مٹی کا اک ڈھیر بن گیا جس کی تجھے تلاش ہے اے "استاد" وہ تو تمہاری شاعری بن گیا۔