Skip to main content

Posts

Showing posts from September, 2018

کوئی دیوانہ سمجھتا ہے

کوئی دیوانہ کہتا ہے  کوئی پاگل سمجھتا ہے مگر دھرتی کی بے چینی  کو بس بادل سمجھتا ہے میں تجھ سےدور کیسا ہوں تو مجھ سےدور کیسی ہے یہ میرا دل سمجھتا ہے یا تیرا دل سمجھتا ہے محبت ا...

غزل

کسی کو چاند اور کسی کو تاروں سے مسئلہ ہے، اُســــــے خزاں سے مجھے بہاروں سے مسئلہ ہے، دلِ شکستہ اُس ایک لڑکی کو کافی دن سے، تـــــرے علاوہ تمام یاروں ســـــے مسئلہ ہے، مجھ...

یاد نہ آیا کوئی

کیا لگے آنکھ ، کہ پِھر دل میں سمایا کوئی رات بھر پِھرتا ہے اِس شہر میں سایا کوئی فِکر یہ تھی کہ شب ہجر کٹے گی کیوں کر لُطف یہ ہے کہ ہمَیں یاد نہ آیا کوئی شوق یہ تھا کہ محبت میں جلی...

کیوں نہیں دیتے

ایک بارہی جی بهر کے سزا کیوں نہیں دیتے گر حرفِ غلط ہوں تو مٹا کیوں نہیں دیتے ایسے ہی اگر مونس و غمخوار ہو میرے یارو مجهے مرنے کی دعا کیوں نہیں دیتے اب دشتِ غم سے مرا دم گھٹنے لگ...

یہ کون لوگ ہیں

خرید کر جو پرندے اڑائے جاتے ہیں‌ ہمارے شہر میں کثرت سے پائے جاتے ہیں میں دیکھ آیا ہوں اِک ایسا کارخانہ ‘ جہاں چراغ توڑ کے سورج بنائے جاتے ہیں‌ یہ کون لوگ ہیں ‘ پہلے کبھی نہيں دیکھے جو کھینچ تان کے منظر پہ لائے جاتے ہیں اے آسماں تجھے اُن کی خبر بھی ہے کہ نہيں جو دن دیہاڑے زمیں سے اٹھائے جاتے ہیں یہ ساری فِــلم ہی اچّھـی طـــرح بنی ہوئی ہے مگر جو سِِــین اچانک دکھائے جاتے ہیں میں اِس لیے بھی سَــمُندر سے خوف کھاتا ہوں مجھـے نصاب میں دریـا پڑھائے جاتے ہیں کہیں مِلیں گے تو پھر جان جاؤ گے’ عـامـی ہـم ایسـے ہیـں نہيـں ‘ جیسـے بتائے جاتے ہیں

کہاں جاتے

شکیل بدایونی / قتیل شفائی / پیر نصیر الدین نصیر / مخمور دہلوی ............... شکیل بدایونی نہ ملتا غم تو بربادی کے افسانے کہاں جاتے اگر دنیا چمن ہوتی تو ویرانے کہاں جاتے چلو اچھا ہُوا اپنو...

غزل

جو بے ثبات ہو اس سر خوشی کو کیا کیجے یہ زندگی ہے تو پھر زندگی کو کیا کیجے رکا جو کام تو دیوانگی ہی کام آئی نہ کام آئے تو فرزانگی کو کیا کیجے یہ کیوں کہیں کہ ہمیں کوئی رہنما نہ ملا مگر سرشت کی آوارگی کو کیا کیجے کسی کو دیکھ کے اک موج لب پہ آ تو گئی اٹھے نہ دل سے تو ایسی ہنسی کو کیا کیجے ہمیں تو آپ نے سوز الم ہی بخشا تھا جو نور بن گئی اس تیرگی کو کیا کیجے ہمارے حصے کا اک جرعہ بھی نہیں باقی نگاہ دوست کی مے خانگی کو کیا کیجے جہاں غریب کو نان جویں نہیں ملتی وہاں حکیم کے درس خودی کو کیا کیجے وصال دوست سے بھی کم نہ ہو سکی راشدؔ ازل سے پائی ہوئی تشنگی کو کیا کیجے

قطعہ

کچھ تو کھویا ھے زندگی نے آج ھاتھ ملتی ھی چلی جاتی ھے    ھاتھ کس کا ھے ھاتھ میں فرحت تو سنبھلتی ھی چلی جاتی ھے ۔ فرحت آمجد                      

حسن کوزہ گر

حَسن کُوزہ گر جہاں زاد، نیچے گلی میں ترے در کے آگے یہ میں سوختہ سر حسن کوزہ گر ہوں تجھے صبح بازار میں بوڑھے عطّار یوسف کی دکّان پر میں نے دیکھا تو تیری نگاہوں میں وہ تابناکی ت...

دیوانے کہاں جاتے

بہلتے کس جگہ ، جی اپنا بہلانے کہاں جاتے تری چوکھٹ سے اُٹھ کر تیرے دیوانے کہاں جاتے نہ واعظ سے کوئی رشتہ، نہ زاہد سے شناسائی اگر ملتے نے رندوں کو تو پیمانے کہاں جاتے خدا کا شکر...