Skip to main content

Posts

Showing posts from 2016

مرنے کی دعائیں کیوں مانگوں

مرنے کی دُعائیں کیوں مانگوں ،جِینے کی تمنّا کون کرے یہ دُنیا ہو یا وہ دُنیا ، اب خواہش ِ دُنیا کون کرے جب کشتی ثابت و سالم تھی،ساحل کی تمنّا کِس کو تھی اب ایسی شکستہ کشتی پر ساحل کی تمنّا کون کرے جو آگ لگائی تھی تُم نے اُس کو تو بُجھایا اشکوں نے جو اشکوں نے بھڑکائی ہے،اُس آگ کو ٹھنڈا کون کرے دُنیا نے ہمیں چھوڑا جذبی،ہم چھوڑ نہ دیں کیوں دُنیا کو دُنیا کو سمجھ کر بیٹھے ہیں ، اب دُنیا دُنیا کون کرے (معین احسن جذبی)

غزل

تم ایسا کرنا کہ کوئی جگنو کوئی ستارہ سنبھال رکھنا مرے اندھیروں کی فکر چھوڑو بس اپنے گھر کا خیال رکھنا اجاڑ موسم میں ریت دھرتی پہ فصل بوئی تھی چاندنی کی اب اس میں اُگنے لگے اندھیرے تو کیسا جی میں ملال رکھنا دیار الفت میں اجنبی کو سفر ہے درپیش ظلمتوں کا کہیں وہ راہوں میں کھو نہ جائے ذرا دریچہ اُجال رکھنا بچھڑنے والے نے وقت رخصت کچھ اس نظر سے پلٹ کے دیکھا کہ جیسے وہ بھی یہ کہہ رہا ہو تم اپنے گھر کا خیال رکھنا یہ دھوپ چھائوں کا کھیل ہے یا خزاں بہاروں کی گھات میں ہے نصیب صبح عروج ہو تو نظر میں شام زوال رکھنا کسے خبر ہے کہ کب یہ موسم اڑا کے رکھ دے گا خاک آذر تم احتیاطاً زمیں کے سر پر فلک کی چادر ہی ڈال رکھنا اعزاز احمد آذر

بھیگی جنوری پھر لوٹ آئی ہے

وہی گلیاں، وہی کوچے وہی سردی کا موسم ہے اسی  انداز  سے  اپنا نطام- زیست برہم ہے---!!! یہ حسن- اتفاق ایسا کہ پھیلی چاندنی بھی ہے وہی ہر سمت ویرانی، اداسی، تشنگی سی ہے وہی ہے بھیڑ سوچوں کی، وہی تنہائیاں پھر سے مسافر اجنبی اور دشت کی پہنائیاں پھر سے مجھے سب یاد ہے کچھ سال پہلے کا یہ قصہ ہے وہی  لمحہ  تو  ویرانے کا  اک آباد حصہ ہے---!!! مری آنکھوں میں وہ اک لمحہء موجود اب بھی ہے وہ  زندہ رات  میرے ساتھ  لاکھوں بار جاگی ہے کسی نے رات کی تنہائی میں سرگوشیاں کی تھیں کسی کی نرم گفتاری نے دل کو لوریاں دی تھیں کسی  نے میری تنہائی کا سارا کرب بانٹا تھا---!! کسی نے رات کی چنری میں روشن چاند ٹانکا تھا چمکتے جگنوؤں کا سیل اک بخشا تھا راتوں کو دھڑکتا سا نیا عنواں دیا تھا میرے خوابوں کو مرے شعروں میں وہ الہام کی صورت میں نکلا تھا معانی بن کے جو لفظوں میں پہلی بار دھڑکا تھا وہ  جس کے  بعد گویا  زندگی  نوحہ  سرائی ہے اسے کہنا کہ " بھیگی جنوری پھر لوٹ آئی ہے " (اعزاز احمد آذر)

Shah Sahib

وٹ ويا واھيرا ويا ويا سجٹ سبهيئي، آئون روئان انھن لاء جيکي ڈک ويا ڈيئي، خبر کانہ پیئي پرين کھڑي پار ویا "شاھ صاحب

Story of a Markhor

Once upon a time close to a town there was a Markhor living on a mountain. Markhor chose that mountain because many small poisonous snake lived on the mountain for their evil deeds and disturb others wild animals and humans of town. As you know that the Markhor is a snake eating animal and he hunt snakes. Gradually, Markhor become popular among all the living creatures and human population. People began to think him as the Saviour and started loving him as their own. On the other hand there was severe unrest among snakes living there. They were always thinking how to bite him day and night. But as soon as someone comes near him he got killed. Whenever snakes are killed by the eater, it was considered a great honor for snakes and their families. When they hear news of the death of a snake, they cry with tears, and friends and relatives of the dead snake get good publicity because they think that they were poor people struggling against oppression. When snakes saw that it ...

Quote

The world is in a constant conspiracy against the brave. It's the age-old struggle: the roar of the crowd on the one side, and the voice of your conscience on the other. Douglas MacArthur

گُلاب کے پھول

روش روش پہ ہیں نکہت فشاں گُلاب کے پھول حسیں گلاب کے پھول، ارغواں گُلاب کے پھول اُفق اُفق پہ زمانوں کی دُھند سے اُبھرے طّیور، نعمے، ندی، تتلیاں، گلاب کے پھول کس انہماک سے بیٹھی کشید کرتی ہے عروسِ گُل بہ قبائے جہاں، گلاب کے پھول جہانِ گریۂ شبنم سے کس غرور کے ساتھ گزر رہے ہیں، تبسّم کناں، گلاب کے پھول یہ میرا دامنِ صد چاک، یہ ردائے بہار یہاں شراب کے چھینٹے، وہاں گلاب کے پھول کسی کا پھول سا چہرہ اور اس پہ رنگ افروز گندھے ہوئے بہ خمِ گیسواں، گلاب کے پھول خیالِ یار ! ترے سلسلے نشوں کی رُتیں جمالِ یار ! تری جھلکیاں گلاب کے پھول مری نگاہ میں دورِ زماں کی ہر کروٹ لہو کی لہر، دِلوں کا دھواں، گلاب کے پھول سلگتے جاتے ہیں چُپ چاپ ہنستے جاتے ہیں مثالِ چہرہِ پیغمبراں گلاب کے پھول یہ کیا طلسم ہے یہ کس کی یاسمیں باہیں چھڑک گئی ہیں جہاں در جہاں گلاب کے پھول کٹی ہے عمر بہاروں کے سوگ میں امجد مری لحد پہ کھلیں جاوداں گلاب کے پھول

رشتہ جام و سبو

رشتۂ جام و سبُو جانے کب ابر سے نکلے مرا کھویا ہوا چاند جانے کب مجلسِ ارباب ِوفا روشن ہو راستے نور طلب شامِ سفر عکس ہی عکس ڈوبتے، کانپتے ، سہمے ہوئے، بجھتے ہوئے دل درد کا بوجھ اٹھائے ہوئے گھبرائے ہوئے صبح کے کفش زدہ رات کے ٹھکرائے ہوئے جانے کب حلقۂ گرداب سے ابھرے ساحل سر پٹکتی ھوئی موجوں کا تلاطم کم ہو جانے کب گونجتی لہروں کی صدامدّھم ہو کف اگلتا ہوا طوفان، پر اسرار ہوا غیر محفوظ خلاؤں میں زمیں کا بن باس نہ فضا لطف پہ مائل، نہ فلک درد شناس کر دئیے ترک قبیلوں نے جنوں کے رشتے زخم کس طرح بھریں چاکِ جگر کیسے سلیں سرحدیں آگ کامیدان بنی بیٹھی ہیں اے غزالانِ چمن اب کے ملیں یا نہ ملیں مل کے بیٹھیں بھی توجانے کوئی کیا بات کہے رشتۂ جامِ و سبوُ یاد رہے یا نہ رہے (مصطفیٰ زیدی)​

دروازہ جو کھول کے دیکھا

دروازہ جو کھولا تو نظر آئے کھڑے وہ حیرت ہے  مجھے،  آج کہاں بھول پڑے وہ بھولا نہیں دل ہجر کے لمحات کڑے وہ راتیں تو بڑی تھیں ہی ، مگر دن بھی بڑے وہ کیوں جان پہ بن آئی ہے،  بگڑا ہے اگر وہ اسکی تو یہ عادت کہ ہواوں سے لڑے وہ الفاظ تھے اسکے کہ بہاروں کے پیامات خوشبو سی برسنے لگی،  یوں پھول جڑے وہ ہر شخص مجھے تجھ سے جدا کرنے کا خواہاں سن پائے اگر ایک تو دس جا کے جڑے وہ بچے کی طرح چاند کو چھونے کی تمنا دل کو کوئی شہہ دے دے تو کیا کیا نہ اڑے وہ طوفان ہے تو کیا غم ، مجھے آواز تو دیجئے کیا بھول گئے آپ مرے کچے گھڑے وہ

والد کے نام

عزیز تر مجهے رکهتا تها وہ رگ جاں سے... یہ بات سچ ہے میرا باپ کم نہ تها ماں سے وہ مان کے کہنے پہ کچه رعب مجه پہ رکهتا تها یہی وجہ تهی کہ مجهے چومتے جهجهکتا تها وہ آشنا رہا میرے ہر کرب سے ہر دم......... جو کهل کے رو نہین پایا مگر سسکتا تها جڑی تهی اس کی ہر ہاں فقط میری ہان سے یہ بات سچ ہے میرا باپ کم نہ تها ماں سے ہر ایک درد وہ چپ چاپ خود پہ سہتا تها تمام عمر وہ اپنون سے کٹ کے رہتا تها وہ لوٹتا تها کہین رات دیر کو دن بهر وجود اس کا پسینے مین ڈهل کے بہتا تها گلے تهے پهر بهی مجهے ایسے چاک داماں سے یہ بات سچ ہے میرا باپ کم نہ تها ماں سے پرانا سوٹ پہنتا تها کم وہ کهاتا تها مگر کهلونے میرے وہ سب خرید لا تا تها وہ مجه کو سوئے ہوئے دکهتا تها جی بهر کے نہ جانے سوچ کے کیا کیا وہ مسکراتا تها میرے بغیر تهے سب خواب اس کے ویران سے یہ بات سچ ہے میرا باپ کم نہ تها ماں سی یہ بات سچ ہے میرا باپ..........!!!!!!

شعر

‏ سفنے دے وچ ماہی ملیا تے میں گل وچ پا لئیاں باہاں ڈردی ماری اکھ نہ کھولاں کدے فیر وچھر نہ جاواں

شعر

‏شوق یہ تھا محبت میں جلیں گے چُپ چاپ رنج یہ ہے کہ تماشہ نہ دِکھایا کوئی ْشہر میں ہمدمِ دیرِینہ بُہت تھے وقت پڑنے پہ میرے کام نہ آیا کوئی

غزل

نہاں ہے سب سے مِرا دردِ سینۂ بیتاب سوائے دِیدۂ  بےخوابِ انجُم و مہ تاب تمہیں تو خیر مِرے غم کدے سے جانا تھا کہاں گئیں مِری نیندیں کِدھر گئے مِرے خواب سفِینہ ڈُوب گیا لیکن اِس وقار کے ساتھ کہ سر اُٹھا نہ سکا پھر کہیں کوئی گرداب عجیب بارشِ نیساں ہوئی ہے اَب کے برس صدف صدف شب ِ وعدہ ہے اَور گُہر کم یاب حُدودِ مَےکدہ و مدرِسہ گِرا نہ سکے یہ مَحرمانِ کلیسا یہ عارفانِ کتاب وہاں بھی بزمِ خِرد میں ہزار پابندی یہاں بھی محفلِ رِنداں میں سینکڑوں آداب مَیں تشنہ کامِ غمِ آگہی کہاں جاؤں اِدھر شعُور کا صحرا اُدھر نظر کا سراب تُو اپنے جلوۂ عُریاں سے شرمسار نہ ہو یہی تمامِ نظارہ یہی کمالِ حجاب (مصطفیٰ زیدی) قبائے سَاز

نظم

جمع تم ہو نہیں سکتے، ہمیں منفی سے نفرت ہے تمہیں تقسیم کرتا ہوں ، تو حاصل کچھ نہیں آتا، کوئی قائدہ کوئی کُلیہ، نہ لاگُو تجھ پے ہو پائے، ضرب تجھ کو اگر دوِ تو، حسابوں میں خلل آئے، اکائی کو دھائی پر، میں نسبت دوں تو کیسے دوں نہ الجبرا سے لگتے ہو، نہ ہو ڈگری نکل آئے، عُمر یہ کٹ گئی میری، تجھے ہمدم سمجھنے میں، جو حل تیرا اگر نکلے، تو سب کچھ ہی اُلجھ جائے، صفر تھی ابتداء میری صفر ہی اب تلک تم ہو، صفر ضربِ صفر ہو تم نہ جس سے کچھ فرق آئے، —

نظم

تم نہیں آئے تھے جب تب بھی تو موجود تھے تم آنکھ میں نور کی اور دل میں لہو کی صورت درد کی لو کی طرح پیار کی خوشبو کی طرح بے وفا وعدوں کی دل داری کا انداز لیے تم نہیں آئے تھے جب تب بھی تو تم آئے تھے رات کے سینے میں مہتاب کے خنجر کی طرح صبح کے ہاتھ میں خورشید کے ساغر کی طرح شاخ خوں رنگ تمنا میں گل تر کی طرح تم نہیں آؤ گے جب تب بھی تو تم آؤ گے یاد کی طرح دھڑکتے ہوئے دل کی صورت غم کے پیمانۂ سر شار کو چھلکاتے ہوئے برگ ہائے لب و رخسار کو مہکاتے ہوئے دل کے بجھتے ہوئے انگارے کو دہکاتے ہوئے زلف در زلف بکھر جائے گا پھر رات کا رنگ شب تنہائی میں بھی لطف ملاقات کا رنگ روز لائے گی صبا کوئے صباحت سے پیام روز گائے گی سحر تہنیت جشن فراق آؤ آنے کی کریں باتیں کہ تم آئے ہو اب تم آئے ہو تو میں کون سی شے نذر کرو کہ مرے پاس بجز مہر و وفا کچھ بھی نہیں ایک خوں گشتہ تمنا کے سوا کچھ بھی نہیں علہ سردار جعفری

 اَے دَورِ کور پرور

  اَے دَورِ کور پرور  اَب وُہ خوشی نہ وُہ غم ، خنداں ہیں اَب نہ گِریاں کِس کِس کو رو چُکے ہیں اَے حادثاتِ دوراں ترتیبِ زندگی نے دُنیا اُجاڑ دی ہے اَے چشمِ لا اُبالی اَے گیسُوئے پریشاں دِن رات کا تسلسل بے ربط ہو چکا ہے اب ہم ہیں اَور خموشی یا وحشتِ غزالاں یا دِن کو خاکِ صحرا یا شب کو دشت و دریا یا شغلِ جام و صہبا اَے جانِ مے فروشاں ٹُوٹا ہُؤا ہے بَربط سُونی پڑی ہے محفِل اَے رنگ و لحن و نغمہ اَے صدرِ بزمِ رنداں پُھولوں سے کھیلتا تھا، جن میں کبھی لڑکپن کانٹے چبھو رہی ہیں ، سینے میں اَب وہ گلیاں جیسے کِسی کی آہٹ ، راتوں کو مقبروں میں ہر بات درد آگیں ، ہر راگ دہشت افشاں یادوں کی چِلمنوں سے لمحے پُکارتے ہیں آسیب بن کے چھت پر اُترا ہے ماہِ تاباں سفّاک سانحوں کی روندی ہوئی قبائیں خُوں خوار حادثوں کے پھاڑے ہوئے گریباں جیسے کوئی کہانی رُوحوں کی انجمن میں ہر بات بےحقیقت ، ہر شے طِلسم افشاں ٹِیلوں کے دامنوں میں صحرائیوں کی قبریں قبروں کے حاشیوں پر سہما ہُوا چراغاں کِن ساعتوں سے کھیلیں کِن صُورتوں کو دیکھیں جُوئے بہارِ ساکِن شہرِ نگار ویراں کِتنی بصیرتوں کی ...

افسانہ

گھٹن زدہ راستہ" ــــــ افسانہ از "ہرمن ہیسے" جرمنی چٹان کے سیاہ سوراخ کے پیچھے ، تنگ گھاٹی کے آغاز پر مَیں کھڑا تھا اور پیچھے دیکھنے کے لیے مڑا۔ سورج خوشگوار سبز دنیا میں لہراتی ہوئی گھاس والے سبزہ زاروں میں چمک رہا تھا۔ اس نیم گرم اور خوبصورت ماحول میں قیام بڑا ہی خوشگوار تھا ، روح خوشبو اور نور میں تیرتے ہوئے ایک بھنورے کی مانند شانتی کے ساتھ گنگنا رہی تھی ۔ میں یقیناََ انجان تھا جو یہ سب کچھ چھوڑ کر پہاڑ کی چوٹی سر کرنا چاہتا تھا۔ میرے رہبر نے نرمی سے میرے بازو کو چھوا، مَیں نے بڑی مشکل سے دلکش نظارے سے اپنی نظریں ہٹائیں ۔ اب مَیں نے دیکھا کہ گھاٹی کی تاریکی میں فرق پڑچکا تھا اور دراڑ میں سے ایک سیاہ ندی پھوٹ رہی تھی اور اس کے کناروں پر زرد گھاس کے گچھے اُگے ہوئے تھے، اس کی تہہ میں رنگ رنگ کے پتھر تھے، زرد اور مردہ جیسے بہت عرصہ پہلے مری ہوئی مخلوق کی ہڈیاں۔ ’’ ہم آرام کریں گے ‘‘ مَیں نے رہبر کو کہا۔ وہ مشفقانہ انداز سے مسکرایا اور ہم نیچے بیٹھ گئے بڑی خوشگوار سی سردی تھی اور پہاڑی گذر گاہ کے بیچ میں ایک کومل سی ہوا چل رہی تھی۔ اس رستے پر جانا ایک بیہودہ بات ہے۔ اس...

نظم

یاد ہے تم کو میرے میز پہ بیٹھے بیٹھے سگریٹ کی ڈبیہ پہ تم نے چھوٹے سے اِک پودے کا ایک سکیچ بنایا تھا آ کر دیکھو اس پودے پر پھول آیا ہے!

کوزہ گر

جہاں زاد، نیچے گلی میں ترے در کے آگے یہ میں سوختہ سر حسن کوزہ گر ہوں! تجھے صبح بازار میں بوڑھے عطّار یوسف کی دکّان پر میں نے دیکھا تو تیری نگاہوں میں وہ تابناکی تھی میں جس کی حسرت میں نو سال دیوانہ پھرتا رہا ہوں جہاں زاد، نو سال دیوانہ پھرتا رہا ہوں! یہ وہ دور تھا جس میں میں نےکبھی اپنے رنجور کوزوں کی جانب پلٹ کر نہ دیکھا ــــــــــ وہ کوزے مرے دست چابک کے پتلےگل و رنگ و روغن کی مخلوق بے جاں وہ سر گوشیوں میں یہ کہتے"حسن کوزہ گر اب کہاں ھے وہ ہم سے خود اپنے عمل سے خداوند بن کر خداؤں کے مانند ہے روئے گرداں! "جہاں زاد نو سال کا دور یوں مجھ پہ گزرا کہ جیسے کسی شہر مدفون پر وقت گزرے تغاروں میں مٹی کبھی جس کی خوشبو سے وارفتہ ہوتا تھا میں سنگ بستہ پڑی تھی صراحی و مینا و جام و سبو اور فانوس و گلداں مری ہیچ مایہ معیشت کے، اظہار فن کے سہارےشکستہ پڑے تھے میں خود، میں حسن کوزہ گر پا بہ گِل خاک بر سر برہنہ سر چاک ژولیدہ مو، سر بزانو کسی غمزدہ دیوتا کی طرح واہمہ کےگل و لا سے خوابوں کے سیّال کوزے بناتا رہا تھا جہاں زاد، نو سال پہلےتو ناداں تھی لیکن تجھے یہ خبر تھی ...