Skip to main content

لوگ طوفاں اٹھا دیں گے

تو کسی اور کی جاگیر ہے اے جان غزل
لوگ طوفان اٹھا دیں گے میرے ساتھ نہ چل

پہلے حق تھا تیری چاہت کے چمن پے میرا
پہلے حق تھا تیری خوشبو بدن پے میرا
اب میرا پیار تیرے پیار کا حق دار نہیں
میں تیرے گیسو ے خمدار کا حق دار نہیں
اب کسی اور کے شانوں پہ ہے تیرا آنچل
لوگ طوفان اٹھا دیں گے میرے ساتھ نہ چل

میں تیرے پیار سے گھر اپنا بساؤں کیسے
میں تیری مانگ ستاروں سے سجاؤں کیسے
میری قسمت میں نہیں پیار کی خوشبو شاید
میرے ہاتھوں کی لکیروں میں تُو نہیں شاید
اپنی تقدیر بنا میرا مقدر نہ بدل
لوگ طوفان اٹھا دیں گے میرے ساتھ نہ چل

مجھ سے کہتی ہیں یہ خاموش نگاہیں تیری
میری پرواز سے اونچی ہیں پناہیں تیری
اور غیرت احساس پہ شرمندہ ہوں
اب کسی اور کی بانہوں میں ہیں بانہیں تیری
اب کہاں میرا ٹھکانہ ہے کہاں تیرا محل
لوگ طوفان اٹھا دیں گے میرے ساتھ نہ چل

Comments

Popular posts from this blog

سندھی غزل

غزل__________ استاد بخاري شوق تنهنجو شئي ئي ٻي بنجي ويو دل لڳي مان ، زندگي بنجي ويو چنڊ تارا ، گل سهي سودا نه ڏين حسن تنهنجو هڪ هٽي بنجي ويو چؤطرف چمڪار تنهنجي سونهن جا چاھه منهنجو چؤدڳي بنجي ويو سونهن سان جيڪو جڙيو سو جنتي جو ٿڙيو سو دوزخي بنجي ويو قرب ۾ ڪؤڙو ، ڪسارو هي سمو شاھه جي وائي مٺي بنجي ويو منهنجو سينو آ سدوري سنڌڙي تنهنجو سِرُ سنڌو ندي بنجي ويو عاشقن آڏو وڏو هيڏو پهاڙ ڌوڙ جي آ خر دڙي بنجي ويو جنهن کي تون”استاد“ووڙيندو وتين سو ته تنهنجي شاعري بنجي ویو ترجمہ شوق تمہارہ کوئی چیز ہی اور بن گیا دل لگی سے زندگی بن گیا چاند تارے پھول کوئی سودا نہیں دیتے حسن تمہارا ایک دوکاں بن گیا چاروں طرف نور ہے تمہارے حسن کا پیار میرا چاندنی بن گیا حسن سے جو جڑا وہ جنتی جو بہکا وہ دوزخی بن گیا محبت میں یہ جھوٹ بھی شاھ (عبدالطیف بھٹائی) کا گیت بن گیا میری چھاتی جیسے سندھ کی دھرتی سر تمہارا دریائے سندھ بن گیا عاشقوں کے آگے اتنا بڑا پہاڑ بھی مٹی کا اک ڈھیر بن گیا جس کی تجھے تلاش ہے اے "استاد" وہ تو تمہاری شاعری بن گیا۔