Skip to main content

تمہارا لہجہ بتا رہا ہے تمہاری دولت نئی نئی ہے

خموش لب ہیں جھکی ہیں پلکیں، دلوں میں اُلفت نئی نئی ہے
ابھی تکلف ہے گفتگو میں، ابھی محبت نئی نئی ہے

ابھی نہ آئے گی نیند تم کو، ابھی نہ ہم کو سکوں ملے گا
ابھی تو دھڑکے گا دل زیادہ، ابھی یہ چاہت نئی نئی ہے

بہار کا آج پہلا دن ہے، چلو چمن میں ٹہل کے آئیں
فضا میں خوشبو نئی نئی ہے، گلوں میں رنگت نئی نئی ہے

جو خاندانی رئیس ہیں وہ مزاج رکھتے ہیں نرم اپنا
تمہارا لہجہ بتا رہا ہے تمہاری دولت نئی نئی ہے

ذرا سا قدرت نے کیا نوازا، کہ آ کے بیٹھے ہو پہلی صف میں
ابھی سے اڑنے لگے ہوا میں، ابھی تو شہرت نئی نئی ہے

بموں کی برسات ہو رہی ہے، پُرانے جانباز سو رہے ہیں
غلام دُنیا کو کر رہاہے، وہ جسکی طاقت نئی نئی ہے

(شبینہ ادیب کانپوری)​

Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

سندھی غزل

غزل__________ استاد بخاري شوق تنهنجو شئي ئي ٻي بنجي ويو دل لڳي مان ، زندگي بنجي ويو چنڊ تارا ، گل سهي سودا نه ڏين حسن تنهنجو هڪ هٽي بنجي ويو چؤطرف چمڪار تنهنجي سونهن جا چاھه منهنجو چؤدڳي بنجي ويو سونهن سان جيڪو جڙيو سو جنتي جو ٿڙيو سو دوزخي بنجي ويو قرب ۾ ڪؤڙو ، ڪسارو هي سمو شاھه جي وائي مٺي بنجي ويو منهنجو سينو آ سدوري سنڌڙي تنهنجو سِرُ سنڌو ندي بنجي ويو عاشقن آڏو وڏو هيڏو پهاڙ ڌوڙ جي آ خر دڙي بنجي ويو جنهن کي تون”استاد“ووڙيندو وتين سو ته تنهنجي شاعري بنجي ویو ترجمہ شوق تمہارہ کوئی چیز ہی اور بن گیا دل لگی سے زندگی بن گیا چاند تارے پھول کوئی سودا نہیں دیتے حسن تمہارا ایک دوکاں بن گیا چاروں طرف نور ہے تمہارے حسن کا پیار میرا چاندنی بن گیا حسن سے جو جڑا وہ جنتی جو بہکا وہ دوزخی بن گیا محبت میں یہ جھوٹ بھی شاھ (عبدالطیف بھٹائی) کا گیت بن گیا میری چھاتی جیسے سندھ کی دھرتی سر تمہارا دریائے سندھ بن گیا عاشقوں کے آگے اتنا بڑا پہاڑ بھی مٹی کا اک ڈھیر بن گیا جس کی تجھے تلاش ہے اے "استاد" وہ تو تمہاری شاعری بن گیا۔