Skip to main content

Posts

Showing posts from September, 2017

کسی کا مقروض میں نہیں پر میرے گریباں پہ ہاتھ سب کے

کسی کو ہم سے ہیں چند شکوے کسی کو بے حد شکائتیں ہیں ہمارے حصے میں صرف اپنی صفائیاں ہیں ،وضاحتیں ہیں قدم قدم پر بدل رہے ہیں مسافروں کی طلب کے رستے ہواؤں جیسی محبتیں ہیں ، صداؤں جیسی رفاقتیں ہیں کسی کا مقروض میں نہیں پر مرے گریباں پہ ہاتھ سب کے کوئی مری چاہتوں کا دشمن ، کسی کو درکار چاہتیں ہیں تری جدائی کے کتنے سورج افق پہ ڈوبے مگر ابھی تک خلش ھے سینے میں پہلے دن سی ، لہو میں ویسی ہی وحشتیں ہیں مری محبت کے رازداں نے یہ کہہ کے لوٹا دیا مرا خط کہ بھیگی بھیگی سی آنسوؤں میں تمام گنجلک عبارتیں ہیں میں دوسروں کی خوشی کی خاطر غبار بن کے بکھر گیا ہوں مگر کسی نے یہ حق نہ مانا کہ میری بھی کچھ ضرورتیں ہیں

ﻟﮩﺠﮯ ﻣﯿﮟ ﺷﮩﻨﺸﺎﮦ ﮐﮯ ﺣﻘﺎﺭﺕ ﮐﻤﺎﻝ ﺗﮭﯽ

ﺍﺱ ﮐﻮ ﺗﻮ ﭼﮭﻮﮌﯾﮯ ﺟﻮ ﻋﺒﺎﺭﺕ ﮐﻤﺎﻝ ﺗﮭﯽ ﻟﮩﺠﮯ ﻣﯿﮟ ﺷﮩﻨﺸﺎﮦ ﮐﮯ ﺣﻘﺎﺭﺕ ﮐﻤﺎﻝ ﺗﮭﯽ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﻮ ﺟﺐ ﺣﻼﻝ ﮐﮭﻼﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﺑﺴﺘﯽ ﮐﯽ ﻟﮍﮐﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻃﮩﺎﺭﺕ ﮐﻤﺎﻝ ﺗﮭﯽ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﯿﺮ ﭘﮭﯿﺮ ﮐﺮ ﻭﮨﯿﮟ ﻻﺗﺎ ﺗﮭﺎ ﮔﻔﺘﮕﻮ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﭨﺎﻟﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﮩﺎﺭﺕ ﮐﻤﺎﻝ ﺗﮭﯽ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﯾﻮﻧﮩﯽ ﻣﺬﺍﻕ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﻔﺖ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﯽ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻣﺰﺍﺝ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺷﺮﺍﺭﺕ ﮐﻤﺎﻝ ﺗﮭﯽ ﻣﺠﺒﻮﺭﯾﻮﮞ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﺍﻭﻻﺩ ﺑﯿﭻ ﺩﯼ ﯾﮧ ﺷﮩﺮ ﺗﮭﺎ ﻋﺠﯿﺐ، ﺗﺠﺎﺭﺕ ﮐﻤﺎﻝ ﺗﮭﯽ ﻭﮦ ﭼﺸﻢ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﯽ ﻣﻌﺠﺰۂ ﻓﻦ ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﭘﮧ ﻧﺎﺯﻧﯿﮟ ﮐﯽ ﺍﺷﺎﺭﺕ ﮐﻤﺎﻝ ﺗﮭﯽ ﻗﺎﺗﻞ ﮐﯽ ﺗﯿﻎ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺷﺮﺍﺭﮮ ﻧﮑﻞ ﭘﮍﮮ ﯾﻌﻨﯽ ﻣﺮﮮ ﻟﮩﻮ ﻣﯿﮟ ﺣﺮﺍﺭﺕ ﮐﻤﺎﻝ ﺗﮭﯽ

پنجابی قطعہ

اک چُپ ساڈی اُتوں چُپ سجنڑا دی ایہو چُپ ۔۔۔۔ چُپ چاپ مُکا گئی!!!۔۔۔ اوہ فخر توں چُپ اسی ادب توں چُپ چُپ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فرق ہزاراں پا گئی۔۔۔

نظم

زندگی نام ہے کچھ لمحوں کا اور ان میں وہ ایک لمحہ جس میں تیری دو بولتی آنکھیں چائے کی پیالی سے جب اُٹھیں تو سیدھا دل میں ڈوبیں....!!

نظم

ﺍﯾﮏ ﺟﯿﺴﯽ ﺑﺎﺗﻮﮞ ﭘﺮ ﺳﺐ ﮐﮯ ﺩﻝ ﺩﮬﮍﮐﺘﮯ ﮬﯿﮟ ﺳﺐ ﺍُﺩﺍﺱ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﺳﯽ ﮐﮩﺎﻧﯽ ﮬﮯ ﺍﺷﮏ ﺁﻧﮑﮫ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮫ ﮐﺮ ﮐﮭﻞ ﮐﮯ ﻣﺴﮑﺮﺍﻧﮯ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﺟﯿﺴﯽ ﺗﺸﺮﯾﺤﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺳﯽ ﻭﺿﺎﺣﺖ ﮬﮯ ﺍﯾﮏ ﺟﯿﺴﮯ ﺷﻌﻠﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﺐ ﮐﮯ ﺧﻮﺍﺏ ﺟﻠﺘﮯ ﮬﯿﮟ ﺳﺐ ﺍُﺩﺍﺱ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﮯﻣﺮﺍﺩ ﮬﺎﺗﮭﻮﮞ ﭘﺮ ﺍﯾﮏ ﺳﯽ ﻟﮑﯿﺮﯾﮟ ﮬﯿﮟ.......!!!!

نئیں بولے تو سنتے نئیں

دیکھو کِتّا سمجھارؤں میں نئیں بولے تو سنتے نئیں ​ اپنی من مانی تم کررئیے نئیں بولے تو سنتے نئیں ​ ​ ​ کرنے کے جو کاماں ہیں وہ تو جیسے کے ویسئی ہیئں ​ نئیں کرنے کے کاماں کررئیں نئیں بولے تو سنتے نئیں ​ ​ ​ میرے گھر میں رہ کو باتاں اماں باوا کی کررئیں ​ یاں کا کھاکو واں کا گارئیں، نئیں بولے تو سنتے نئیں ​ ​ ​ دوبئی نئیں تو جِدّہ جاؤ، کیسے بھی یاں سے نکلو ​ اٹھتے بیٹھتے بھیجا کھارئیں ، نئیں بولے تو سنتے نئیں ​ ​ ​ اِتّی عمر میں باہر جاکو خاک کما کو لاؤں گا ​ ہاتھاں دھوکو پچھّے پڑگئیں، نئیں بولے تو سنتے نئیں ​ ​ ​ دن بھر کام سے تھک کو آئیوں، چمٹیاں مت لیو سونے دو ​ صبئے جلدی اُٹھ سکتا نئیں میں، نئیں بولے تو سنتے نئیں ​ ​ ​ جس صورت پو مرتا تھا میں کتّی سیدھی سادی تھی ​ اسکو میک اپ کرتے جارئیں، نئیں بولے تو سنتے نئیں ​ ​ ​ اب منہ پو میک اپ کرکے جاتی عمر کے پیچھے مت بھاگو ​ گئی سو جوانی پھر آتی نئیں، نئیں بولے تو سنتے نئیں ​ ​ ​ بالاں کالے کرتے کرتے منہ اِتّا کالاہورئیے ​ بچے دیکھ کو ڈرتے جارئیں ، نئیں بولے تو ...

قصہ

کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک چرواہا اپنی بکریاں لیے جنگل میں گھوم رہا تھا کہ وہاں سے ایک شخص کا گذر ہوا۔ اس شخص نے چرواہے سے کہا کہ اگر میں تمہیں یہ بتا دوں کہ یہ کل کتنی بکریاں ہیں تو کیا تم مجھے ایک بکری دو گے؟ چرواہا بولا منظور ہے۔ اس شخص کہا یہ کل 51 بکریاں ہیں اور جھٹ سے ایک بکری اٹھا کے کندھے پر رکھ لی۔ چرواہا بولا اگر میں تمہیں بتا دوں کہ تم کون ہو تو کیا تم مجھے یہ بکری واپس کرو گے۔ وہ شخص بولا منظور ہے۔ چرواہا فورا" بولا تم فلاسفر ہو۔ تمہیں کیسے پتہ چلا ۔ اس شخص نے حیرانی سے کہا پہلے اپنے کندھے سے کتا اتار کے نیچے رکھو پھر بتاتا ہوں ۔ چرواہے نے جواب دیا ۔

قصہ

کہتے ہیں کہ ایک کسان کھیتوں میں ہل چلا رہا تھا ۔ ایک مسافر گزرتے ہوئے حقہ کی باری لینے کے لئے رک گیا۔ دونوں حقہ پینے لگے تو مسافر کہنے لگا کہ تم نے یہ ہل کی لائین سیدھی نہیں لگائی۔ تم نے اس طرف زیادہ جگہ چھوڑ دی ہے۔کسان تنگ آکر کہنے لگا تم نے اپنی بیٹی کو زیور کم دیا تھا۔ مسافر کہنے لگا زیور کا اس ہل چلانے سے کیا تعلق ہے۔ کسان نے جواب دیا : گل ایچوں ای گل نکلدی اے۔

زہرہ فانا اور امام مہدی

زہرہ فونا اور امام مہدی قصہ امام مہدی کے پاکستان آنے کا. پاکستان کی تاریخ میں مزہب کے نام پر ایسے کئی مضحکہ واقعات پیش آچکے ہیں اور اب بھی وقتا" فوقتا" پیش آتے رہتے ہیں جن کا ان...

قطعہ

اک  تو  خواب  لئے   پھرتے   ہو   گلیوں  گلیوں اور اس پہ تکرار بھی کرتے ہو خریدار کے ساتھ  ہم کو اُس شہر میں تعمیر کا سودا ہے جہاں لوگ معمار کو چُن دیتے ہیں دیوار کے ساتھ (فرازؔ)

میرا نوکیا 1280

انتہائی رنج و  غم  کے عالم میں مطلع کیا جاتا ہے کہ میرا Nokia 1280 آج صبح قلیل علالت کے بعد اس دار_ سمارٹ فونی سے کوچ کرگیا ہے۔ مرحوم اک عرصہ سے ضعیف العمری کے باعث متعدد جسمانی و سافٹویئری بیماریوں میں مبتلا تھا مگر گذشتہ ہفتے میرے آئی فون خریدنے کے فیصلے نے مرحوم کو مادر بورڈی صدمہ پہنچایا جو کہ جان لیواثابت ہوا۔ مرحوم کو ضعیف البیٹری کا عارضہ بھی لاحق تھا جو تادم مرگ قائم رہا۔ مرحوم فرح کے ہاتھ کی آخری نشانی تھی جو اس نےبرتھ ڈے گفٹ کے طور پر دیا تھا۔ مرحوم کی صاف آواز ہی کی بدولت رابعہ جیسی دھیمے بولنے والی لڑکی کو بھی سننے میں کبھی کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔ اکیس میسج فی منٹ کی رفتار حاصل کرنا صرف مرحوم ہی کے آرام دہ کی۔پیڈ کا نتیجہ تھا جس کی وجہ سے ایک وقت میں چار بندیوں کے ساتھ چیٹ کرنا ممکن ہوا۔ مرحوم ہی مدیحہ کو چھوڑنے کا سبب بنا تھا جب اس نے پکچرنکلوانے کے لئے منہ بنایا اور میں نے جیب سےمرحوم کو نکالا تواس نے طیش میں آکر کہا یا یہ فون بدلو یا مجھے بدلو۔فرح کی آخری نشانی کیسے بدل سکتا تھا۔مجبورا مدیحہ کو بدلنا پڑا۔ مرحوم تب بھی ٹوٹنے سے بچ گیا تھا جب ہما نے میرا غصہ مر...