Skip to main content

قصہ

کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک چرواہا اپنی بکریاں لیے جنگل میں گھوم رہا تھا کہ وہاں سے ایک شخص کا گذر ہوا۔ اس شخص نے چرواہے سے کہا کہ اگر میں تمہیں یہ بتا دوں کہ یہ کل کتنی بکریاں ہیں تو کیا تم مجھے ایک بکری دو گے؟
چرواہا بولا منظور ہے۔
اس شخص کہا یہ کل 51 بکریاں ہیں اور جھٹ سے ایک بکری اٹھا کے کندھے پر رکھ لی۔
چرواہا بولا اگر میں تمہیں بتا دوں کہ تم کون ہو تو کیا تم مجھے یہ بکری واپس کرو گے۔
وہ شخص بولا منظور ہے۔
چرواہا فورا" بولا تم فلاسفر ہو۔
تمہیں کیسے پتہ چلا ۔ اس شخص نے حیرانی سے کہا
پہلے اپنے کندھے سے کتا اتار کے نیچے رکھو پھر بتاتا ہوں ۔ چرواہے نے جواب دیا ۔

Comments

Popular posts from this blog

سندھی غزل

غزل__________ استاد بخاري شوق تنهنجو شئي ئي ٻي بنجي ويو دل لڳي مان ، زندگي بنجي ويو چنڊ تارا ، گل سهي سودا نه ڏين حسن تنهنجو هڪ هٽي بنجي ويو چؤطرف چمڪار تنهنجي سونهن جا چاھه منهنجو چؤدڳي بنجي ويو سونهن سان جيڪو جڙيو سو جنتي جو ٿڙيو سو دوزخي بنجي ويو قرب ۾ ڪؤڙو ، ڪسارو هي سمو شاھه جي وائي مٺي بنجي ويو منهنجو سينو آ سدوري سنڌڙي تنهنجو سِرُ سنڌو ندي بنجي ويو عاشقن آڏو وڏو هيڏو پهاڙ ڌوڙ جي آ خر دڙي بنجي ويو جنهن کي تون”استاد“ووڙيندو وتين سو ته تنهنجي شاعري بنجي ویو ترجمہ شوق تمہارہ کوئی چیز ہی اور بن گیا دل لگی سے زندگی بن گیا چاند تارے پھول کوئی سودا نہیں دیتے حسن تمہارا ایک دوکاں بن گیا چاروں طرف نور ہے تمہارے حسن کا پیار میرا چاندنی بن گیا حسن سے جو جڑا وہ جنتی جو بہکا وہ دوزخی بن گیا محبت میں یہ جھوٹ بھی شاھ (عبدالطیف بھٹائی) کا گیت بن گیا میری چھاتی جیسے سندھ کی دھرتی سر تمہارا دریائے سندھ بن گیا عاشقوں کے آگے اتنا بڑا پہاڑ بھی مٹی کا اک ڈھیر بن گیا جس کی تجھے تلاش ہے اے "استاد" وہ تو تمہاری شاعری بن گیا۔