Skip to main content

کسی کا مقروض میں نہیں پر میرے گریباں پہ ہاتھ سب کے

کسی کو ہم سے ہیں چند شکوے کسی کو بے حد شکائتیں ہیں
ہمارے حصے میں صرف اپنی صفائیاں ہیں ،وضاحتیں ہیں

قدم قدم پر بدل رہے ہیں مسافروں کی طلب کے رستے
ہواؤں جیسی محبتیں ہیں ، صداؤں جیسی رفاقتیں ہیں

کسی کا مقروض میں نہیں پر مرے گریباں پہ ہاتھ سب کے
کوئی مری چاہتوں کا دشمن ، کسی کو درکار چاہتیں ہیں

تری جدائی کے کتنے سورج افق پہ ڈوبے مگر ابھی تک
خلش ھے سینے میں پہلے دن سی ، لہو میں ویسی ہی وحشتیں ہیں

مری محبت کے رازداں نے یہ کہہ کے لوٹا دیا مرا خط
کہ بھیگی بھیگی سی آنسوؤں میں تمام گنجلک عبارتیں ہیں

میں دوسروں کی خوشی کی خاطر غبار بن کے بکھر گیا ہوں
مگر کسی نے یہ حق نہ مانا کہ میری بھی کچھ ضرورتیں ہیں

Comments

Popular posts from this blog

سندھی غزل

غزل__________ استاد بخاري شوق تنهنجو شئي ئي ٻي بنجي ويو دل لڳي مان ، زندگي بنجي ويو چنڊ تارا ، گل سهي سودا نه ڏين حسن تنهنجو هڪ هٽي بنجي ويو چؤطرف چمڪار تنهنجي سونهن جا چاھه منهنجو چؤدڳي بنجي ويو سونهن سان جيڪو جڙيو سو جنتي جو ٿڙيو سو دوزخي بنجي ويو قرب ۾ ڪؤڙو ، ڪسارو هي سمو شاھه جي وائي مٺي بنجي ويو منهنجو سينو آ سدوري سنڌڙي تنهنجو سِرُ سنڌو ندي بنجي ويو عاشقن آڏو وڏو هيڏو پهاڙ ڌوڙ جي آ خر دڙي بنجي ويو جنهن کي تون”استاد“ووڙيندو وتين سو ته تنهنجي شاعري بنجي ویو ترجمہ شوق تمہارہ کوئی چیز ہی اور بن گیا دل لگی سے زندگی بن گیا چاند تارے پھول کوئی سودا نہیں دیتے حسن تمہارا ایک دوکاں بن گیا چاروں طرف نور ہے تمہارے حسن کا پیار میرا چاندنی بن گیا حسن سے جو جڑا وہ جنتی جو بہکا وہ دوزخی بن گیا محبت میں یہ جھوٹ بھی شاھ (عبدالطیف بھٹائی) کا گیت بن گیا میری چھاتی جیسے سندھ کی دھرتی سر تمہارا دریائے سندھ بن گیا عاشقوں کے آگے اتنا بڑا پہاڑ بھی مٹی کا اک ڈھیر بن گیا جس کی تجھے تلاش ہے اے "استاد" وہ تو تمہاری شاعری بن گیا۔