Skip to main content

میرا نوکیا 1280

انتہائی رنج و  غم  کے عالم میں مطلع کیا جاتا ہے کہ میرا Nokia 1280 آج صبح قلیل علالت کے بعد اس دار_ سمارٹ فونی سے کوچ کرگیا ہے۔
مرحوم اک عرصہ سے ضعیف العمری کے باعث متعدد جسمانی و سافٹویئری بیماریوں میں مبتلا تھا مگر گذشتہ ہفتے میرے آئی فون خریدنے کے فیصلے نے مرحوم کو مادر بورڈی صدمہ پہنچایا جو کہ جان لیواثابت ہوا۔ مرحوم کو ضعیف البیٹری کا عارضہ بھی لاحق تھا جو تادم مرگ قائم رہا۔
مرحوم فرح کے ہاتھ کی آخری نشانی تھی جو اس نےبرتھ ڈے گفٹ کے طور پر دیا تھا۔
مرحوم کی صاف آواز ہی کی بدولت رابعہ جیسی دھیمے بولنے والی لڑکی کو بھی سننے میں کبھی کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔
اکیس میسج فی منٹ کی رفتار حاصل کرنا صرف مرحوم ہی کے آرام دہ کی۔پیڈ کا نتیجہ تھا جس کی وجہ سے ایک وقت میں چار بندیوں کے ساتھ چیٹ کرنا ممکن ہوا۔
مرحوم ہی مدیحہ کو چھوڑنے کا سبب بنا تھا جب اس نے پکچرنکلوانے کے لئے منہ بنایا اور میں نے جیب سےمرحوم کو نکالا تواس نے طیش میں آکر کہا یا یہ فون بدلو یا مجھے بدلو۔فرح کی آخری نشانی کیسے بدل سکتا تھا۔مجبورا مدیحہ کو بدلنا پڑا۔
مرحوم تب بھی ٹوٹنے سے بچ گیا تھا جب ہما نے میرا غصہ مرحوم پر نکالا تھااور دوسری منزل سے نیچے گرا دیا تھا۔
عینی ہی واحد لڑکی تھی جس کو مرحوم اتناہی اچھا لگتا تھا جتنی مجھے عینی۔تب تک میں آئی فون بھی لےچکا تھا لیکن پھر بھی عینی کے اصرار پر اس سے بات کرنے کے لئے مرحوم کو ہی استعمال کرتا تھا۔مجھے اچھی طرح یاد ہے جب عینی مجھ سے ملتی تھی تو مجھ سے پہلے مرحوم کو چومتی تھی۔
مرحوم نے ہر بریک اپ میں میرا ساتھ دیا۔مرحوم دوستو ں سے زیادہ وفادار تھا۔مرحوم نے کبھی نخرہ کیا نہ فریب دیا۔نہ بے وفائی کی نہ دھوکہ دیا۔
مرحوم میرا نامہ بر تھا۔میری بے وقوفیوں کا چشم دید گواہ تھا۔میری نادانیوں کا سہولت کار تھا۔میری غلطیوں میں شریک جرم تھا۔
آج مرحوم اپنے ان باکس میں سینکڑوں راز بھرے میسجز اور کونٹیکٹس میں کئی حسیناؤں کے نمبرز دفن کئے مجھے انسانوں کی طرح چھوڑ گیا۔ مرحوم نے سوگواران میں ایک باریک پن والا چارجر، ایک ٹوٹی ہوئی ھینڈ فری اور ایک مگر مچھ کی کھال والا بیک کور چھوڑا ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

سندھی غزل

غزل__________ استاد بخاري شوق تنهنجو شئي ئي ٻي بنجي ويو دل لڳي مان ، زندگي بنجي ويو چنڊ تارا ، گل سهي سودا نه ڏين حسن تنهنجو هڪ هٽي بنجي ويو چؤطرف چمڪار تنهنجي سونهن جا چاھه منهنجو چؤدڳي بنجي ويو سونهن سان جيڪو جڙيو سو جنتي جو ٿڙيو سو دوزخي بنجي ويو قرب ۾ ڪؤڙو ، ڪسارو هي سمو شاھه جي وائي مٺي بنجي ويو منهنجو سينو آ سدوري سنڌڙي تنهنجو سِرُ سنڌو ندي بنجي ويو عاشقن آڏو وڏو هيڏو پهاڙ ڌوڙ جي آ خر دڙي بنجي ويو جنهن کي تون”استاد“ووڙيندو وتين سو ته تنهنجي شاعري بنجي ویو ترجمہ شوق تمہارہ کوئی چیز ہی اور بن گیا دل لگی سے زندگی بن گیا چاند تارے پھول کوئی سودا نہیں دیتے حسن تمہارا ایک دوکاں بن گیا چاروں طرف نور ہے تمہارے حسن کا پیار میرا چاندنی بن گیا حسن سے جو جڑا وہ جنتی جو بہکا وہ دوزخی بن گیا محبت میں یہ جھوٹ بھی شاھ (عبدالطیف بھٹائی) کا گیت بن گیا میری چھاتی جیسے سندھ کی دھرتی سر تمہارا دریائے سندھ بن گیا عاشقوں کے آگے اتنا بڑا پہاڑ بھی مٹی کا اک ڈھیر بن گیا جس کی تجھے تلاش ہے اے "استاد" وہ تو تمہاری شاعری بن گیا۔