Skip to main content

Posts

Showing posts from 2019

قطعہ

میرے عزیز کبھی خوش نہیں ہوئے مجھ سے تمہیں بھی میری محبت سے مسئلہ رہے گا وہ میرے پیار کو ٹھکرا کے کہہ رہا ہے مجھے تم اچھے بندے ہو سو تم سے رابطہ رہے گا

قطعہ

جو اک خلا ہے محبت میں وصل و ہجر کے بیچ سبھی کو خوف اسی درمیاں سے آتا ہے ہے ذات ایسی مقفل کہ دم نہیں آتا ترا خیال نہ جانے کہاں سے آتا ہے

جامن کا پیڑ

رات کو بڑے زور کا جھکڑ چلا۔ سیکریٹریٹ کے لان میں جامن کا ایک درخت گرپڑا۔ صبح جب مالی نے دیکھا تو اسے معلوم ہوا کہ درخت کے نیچے ایک آدمی دبا پڑا ہے۔مالی دوڑا دوڑا چپراسی کے پاس گیا،چپراسی دوڑا دوڑا کلرک کے پاس گیا، کلرک دوڑا دوڑا سپرنٹنڈنٹ کے پاس گیا،سپرنٹنڈنٹ دوڑا دوڑاباہر لان میں آیا۔ منٹوں میں درختوں کے نیچے دبے ہوئے آدمی کے گرد مجمع اکٹھا ہوگیا۔ ”بے چارہ!جامن کا پیڑ،کتنا پھل دار تھا!" ایک کلرک بولا۔ "اور اس کی جامنیں کتنی رسیلی ہوتی تھیں۔“ دوسرا کلرک یاد کرتے ہوئے بولا۔ ”میں پھلوں کے موسم میں جھولی بھرکے گھر لے جاتا تھا۔" " میرے بچے اس کی جامنیں کتنی خوشی سے کھاتے تھے۔“تیسرا کلرک تقریباً آبدیدہ ہوکر بولا۔ "مگریہ آدمی۔۔!!!" مالی نے دبے ہوئے آدمی کی طرف اشارہ کیا۔ "ہاں، یہ آدمی۔۔۔۔!" سپرنٹنڈنٹ سوچ میں پڑ گیا۔ ”مرگیا ہوگا!اتنا بھاری تنا جس کی پیٹھ پر گرے وہ بچ سکتا ہے؟“دوسرا چپراسی بولا۔ دبے ہوئے آدمی نے بمشکل کراہتے ہوئے کہا۔ ”نہیں!میں زندہ ہوں۔“ ”درخت کو ہٹا کر اسے جلدی سے نکال لینا چاہیے۔"مالی نے مشورہ دیا۔ ”مشکل معلوم ہوتا ہے۔"ایک ک...

نعتِ رسولِ آخر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

نعتِ رسولِ آخر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سارے حرفوں میں اک حرف پیارا بہت اور یکتا بہت سارے ناموں میں اک نام سوہنا بہت اور ہمارا بہت اُس کی شاخوں پہ آ کر زمانوں کے موسم بسیرا کریں اک شجر، جس کے دامن کا سایہ بہت اور گھنیرا بہت ایک آہٹ کی تحویل میں ہیں زمیں آسماں کی حدیں ایک آواز دیتی ہے پہرا بہت اور گھنیرا بہت جس دئیے کی توانائی ارض و سما کی حرارت بنی اُس دئیے کا ہمیں بھی حوالہ بہت اور اجالا بہت میری بینائی سے اور مرے ذہن سے محو ہوتا نہیں میں نے روئے محمدؐ کو سوچا بہت اور چاہا بہت میرے ہاتھوں سے اور میرے ہونٹوں سے خوشبو جاتی نہیں میں نے اسمِ محمدؐ کو لکھا بہت اور چُوما بہت بے یقیں راستوں پر سفر کرنے والے مسافر سنو بے سہاروں کا ہے اک سہارا بہت، کملی والا بہت

غزل

آپ ہیرا ، صدف ، نگیں ، کیوں ہیں آپ بے انتہا حسیں ، کیوں ہیں آپ کی کاکلوں کے جنگل میں اتنی موسیقیاں ، مکیں کیوں ہیں چاند خود بھی نہیں سمجھ پایا آپ اس درجہ مہ جبیں ، کیوں ہیں شمس حیراں ہے ، آپ کے عارض پھول ہو کر بھی ، آتشیں کیوں ہیں آپ اتنے دروغ گو ہو کر اس قدر قابلِ یقیں ، کیوں ہیں شاعروں کے دلوں پہ آپ چلیں گامزن ، برسرِ زمیں ، کیوں ہیں جتنے بے رحم دلربا ہیں ، عدم اتنے محبوب ، دلنشیں ، کیوں ہیں !!  عبدالحمید عدم

اب سو جائو

کیوں‌جاگتے ہو  کیا سوچتے ہو کچھ ہم سے کہو  تنہا نہ رہو  سوچا نہ کرو  یادوں کے برستے بادل  پلکوں پہ سجانا ٹھیک نہیں جو اپنے بس کی بات نہیں‌ اُس کو دہرانا ٹھیک نہیں‌ اب رات کی آ...

نیلی جھیل

لڑکو! تم بڑے ہو گے تو تمہیں افسوس ہوگا۔ جوں جوں تمہارا تجربہ بڑھتاجائے گا، تمہارے خیالات میں پختگی آتی جائے گی اور یہ افسوس بھی بڑھتا جائے گا۔یہ خواب پھیکے پڑتے جا ئیں گے۔ تب اپنے آپ کو فر یب نہ دے سکو گے۔بڑے ہو کر تمہیں معلوم ہو گا کہ زندگی بڑی مشکل ہے۔جینے کے لیئے مرتبے کی ضرورت ہے۔آسائش کی ضرورت ہےاور ان کے لیئے روپے کی ضرورت ہے۔اور روپیہ حاصل کرنے کے لیے مقابلہ ہوتا ہے۔مقابلے میں جھوٹ بولنا پڑتا ہے،دھوکا دینا پڑتا ہے،غداری کرنی پڑتی ہے۔یہاں کوئی کسی کی پرواہ نہیں کرتا۔دنیا میں دوستی ،محبت،انس،سب رشتے مطلب پر قائم ہیں۔محبت آمیز باتوں ،مسکراہٹوں،مہر بانیوں،شفقتوں--ان سب کی تہہ میں کوئی غرض پوشیدہ ہے۔یہاں تک کہ خدا کو بھی لوگ ضرورت پڑنے پر یاد کرتے ہیں۔اور جب خدا دعا قبول نہیں کرتا تو لوگ دہریے بن جاتے ہیں،اس کے وجود سے منکر ہو جاتے ہیں۔اور دنیا کو تم کبھی خوش نہیں رکھ سکتے۔اگر تم سادہ لوح ہوئے تو دنیا تم پر ہنسےگی،تمہارا مذاق اُڑاے گی۔اگر عقلمند ہوئے تو حسد کرے گی۔اگر الگ تھلگ رہے تو تمہیں چڑچڑا اور مکار گردانا جائے گا۔اگر ہر ایک سے گھل مل کر رہے تو تمہیں خوشامدی سمجھا جائے گا۔اگر سو...

اک سجن ہوندا سی

‏اِک سجن ہوندا سی پھگن چیت بہاراں ورگا انب تے سیب اناراں ورگا صاحب تے سرکاراں ورگا ہفتے تے اتواراں ورگا اِک سجن ہوندا سی مکھن دُدھ ملائیاں ورگا ٹانگر گچک خطائیاں ورگا برف...

دل کے ویرانے

ویرانہ جگمگاتے تھے امیدوں کے فلک بوس محل عظمتِ شوق کے مینار فروزاں تھے کبھی کتنے گونجے ہوئے جذبات کے کاشانے تھے کتنے جاگے ہوئے رنگین شبستاں تھے کبھی کہکشاں تھی بھی تو پامالِ روِش تھی اُس کی چاند تاروں سے حسیں اُس کے گلستاں تھے کبھی کتنے نوعمر حسیں، کتنے جواں سال حسیں زلف کھولے ہوئے ہر سمت خراماں تھے کبھی دل کے ویرانے پہ اے دوست نظر کرتا جا! صبح ہنستی ہوئی رکھتی تھی گلستاں میں قدم رات اوڑھے ہوئے تاروں کی رِدا آتی تھی آرزوؤں کے گُل آریز دریچوں سے سدا گنگناتی ہوئی جنّت کی ہوا آتی تھی جیسے مستی میں کسی زلف کی کُھل جائے گِرہ اِس طرح جھوم کے گھنگھور گھٹا آتی تھی دل کے سوتوں میں کوئی ساز بجا کرتا تھا دھیمی دھیمی کسی چھاگل کی صدا آتی تھی دل کے ویرانے پہ اے دوست نظر کرتا جا! چاندنی رات میں اجڑی ہوئی اِس منزل پر آج اک درد کا پرتَو سا نظر آتا ہے ڈوبتے تاروں سے شبنم کے خنک اشکوں میں تھرتھراتا ہوا اک عکس اتر آتا ہے ڈوب جاتی ہے نظر درد کے طوفانوں میں پھر سے ماضی کا ہر اک نقش ابھر آتا ہے آج مدّت سے ہے خاموش یہ نغموں کا دیار گنگناتا ہوا اب کون اِدھر آتا ہے؟ دل کے ویرانے پہ ا...

غزل

کوزہ گر ! خاک مری خواب کے خاکے سے گزار کربِ تخلیق! مجھے سوئی کے ناکے سے گزار ہستیء جاں سے گزر جائے مرا پختہ ظروف فرش پر پھینک اسے اور چھناکے سے گزار ساحلِ خشک ، نمیدہ ہو کبھی بحر...

مزاح

Mushtaq Ahmed Yousafi's amusing write up: *ہر آدمی اتنا برا نہیں ہوتا جتنا اس کی بیوی اس کو سمجھتی ہے اور اتنا اچھا بھی نہیں ہوتا جتنا اس کی ماں اس کو سمجھتی ہے۔* *ہر عورت اتنی بری نہیں ہوتی جتنی پاسپورٹ اور شناختی کارڈ کی فوٹو میں نظر آتی ہے اور اتنی اچھی بھی نہیں ہوتی جتنی فیس بک اور واٹس اپ پر نظر آتی ہے۔* *آج کل ‎صابن کےاشتہارت دیکھ کرسمجھ نہیں آتی کہ انہیں کھانا ہے یا ان سے نہانا ہے دودھ،بادام اور انڈے سے بنا بس ذرا سا (LUX)۔* *شوگر کی بیماری اتنی بڑھ گئی ہے کہ لوگ میٹها کهانا پینا تو کیا میٹھا بولنا بهی چهوڑ گئے ہیں۔* *اکثر میاں بیوی ایک دوسرے سے سچا پیار کرتے ہیں اور "سچ ہمیشہ کڑوا ہوتا ہے"۔* *اگر سبزہ سبزیاں کھانے سے وزن کم ہوتا تو ایک بھی بھینس موٹی نہ ہوتی۔* *بےشک دکھ ، حالات اور بیوٹی پارلر انسان کو بدل کر رکھ دیتے ہیں۔* *کچھ خواتین کو کچھ یاد رہے نہ رہے یہ ضرور یاد رہتا ہے کہ ہماری ایک پلیٹ اس کے ہاں گئی تھی ایک ڈش اس کے یہاں گئی تھی ۔* *شکر ہے شوہر عام طور پر خوبصورت ہوتے ہیں ورنہ سوچیں اس مہنگائی میں دو لوگوں کا بیوٹی پارلر کا خرچا کتنا بھاری پڑتا۔*...

غزل

ضَبط  کرنا  نہ  کبھی ضَبط  میں وَحشَت کرنا اتنا  آساں  بھی  نہیں تجھ   سے  مَحَبَّت  کرنا تجھ سے کہنے کی کوئی بات نہ کرنا تجھ سے کُنجِ تنہائی   میں   بس خُود  کو  مَلامَت  ک...

روح کی موت

رُوح کی مَوت چمک سکے جو مری زیست کے اندھیرے میں وہ اک چراغ کسی سمت سے اُبھر نہ سکا یہاں تمھاری نظر سے بھی دیپ جل نہ سکے یہاں تمھارا تبسم بھی کام کر نہ سکا لہو کے ناچتے دھارے کے سامنے اب تک دل و دماغ کی بےچارگی نہیں جاتی جنوں کی راہ میں سب کچھ گنوا دیا لیکن مرے شعور کی آوارگی نہیں جاتی نہ جانے کس لئے اس انتہائے حدت پر مرا دماغ سلگتا ہے جل نہیں جاتا نہ جانے کیوں ہر اک اُمید لوٹ جانے پر مرے خیال کا لاوا پگھل نہیں جاتا نہ جانے کون سے ہونٹوں کا آسرا پا کر تمھارے ہونٹ مری تِشنگی کو بُھول گئے وہی اصول جو مخکم تھے نرم سائے میں ذرا سی دھوپ میں نکلے تو جُھول جُھول گئے مصطفیٰ زیدی

میرے ھم نفس میرے ھم نوا

میرے ہم نفس میرے ہم نوا مجھے دوست بن کے دغا نہ دے میں ہوں درد عشق سے جاں بہ لب مجھے زندگی کی دعا نہ دے میرے داغ دل سے ہے روشنی اسی روشنی سے ہے زندگی مجھے ڈر ہے اے مرے چارہ گر یہ چراغ...

قطعہ

اک عمر ہوئی موسم زنداں نہیں بدلا روزن ہے وہی دیدۂ نمناک وہی ہے ہر چند کہ حالات موافق نہیں پھر بھی دل تیری طرف داری میں سفاک وہی ہے

تو میری شمع دل و دیدہ

تُو مری شمعِ دلِ و دیدہ وہ کوئی رقص کا انداز ہو یا گیت کی تان میرے دل میں تری آواز ابھر آتی ہے تیرے ہی بال بکھر جاتے ہیں دیواروں پر تیری ہی شکل کتابوں میں نظر آتی ہے شہر ہے یا کسی عیّار کا پُرہول طلسم تُو ہے یا شہرِ طلسمات کی ننھی سی پری ہر طرف سیلِ رواں، بس کا دھواں، ریل کا شور ہر طرف تیرا خُنک گام، تری جلوہ گری ایک اک رگ تری آہٹ کے لیے چشمِ براہ جیسے تُو آئے گی بس کوئی گھڑی جاتی ہے تیری پرچھائیں ہے یا تُو ہے مرے کمرے میں بلب کی تیز چمک ماند پڑی جاتی ہے ٹینک سڑکوں پہ چلیں جیپ کے آگے پیچھے دن گذرتا ہے ترا سایۂ ابرو لے کر فلسفے تُند حقائق کی شعائیں ڈالیں شام آتی ہے تری آنکھ کا جادو لے کر لنگر انداز ہوں ساحل پہ مشینوں کے جہاز رات ڈھل جاتی ہے مہکے ہوئے گیسو لے کر میں اسی گیس کی دنیا میں تعفّن کے قریب شعر لکھتا ہوں ترے جسم کی خوشبو لے کر مصطفیٰ زیدی

خوابوں کو باتیں کرنے دو

خوابوں کو باتيں کرنے دو آنکھوں ميں جو خواب ہيں ان کو باتيں کرنے دو ہونٹوں سے وہ لفظ کہو جو کاجل کہتا ہے موسم جو سنديسہ لايا اس کو پڑھ تو لو سن تو لو وہ راز جو پياسا ساحل کہتا ہے آتي جاتي لہروں سے کيا پوچھ رہي ہے ريت؟ بادل کي دہليز پہ تارے کيونکر بيٹھے ہيں جھرنوں نے اس گيت کا مکھڑا کيسے ياد کيا جس کے ہر اک بول ميں ہم تم باتيں کرتے ہيں راہ گزر کا، موسم کا، ناں بارش کا محتاج وہ دريا جو ہر اک دل کے اندر رہتا ہے کھا جاتا ہے ہر اک شعلے وقت کا آتش دان بس اک نقش محبت ہے جو باقي رہتا ہے آنکھوں ميں جو خواب ہيں ان کو باتيں کرنے دو ہونٹوں سے وہ لفظ کہو جو کاجل کہتا ہے ​

یوں ہے

عشق بس ایک کرشمہ ہے، فسوں ہے، یوں ہے یوں تو کہنے کو سبھی کہتے ہیں، یوں ہے، یوں ہے جیسے کوئی درِ دل پر ہو ستادہ کب سے ایک سایہ نہ دروں ہے، نہ بروں ہے، یوں ہے تم محبت میں کہاں سود و ز...

غزل

جو چلا گیا سو چلا گیا، جو ہے پاس اُس کا خیال رکھ جو لُٹا دیا اُسے بھول جا، جو بچا ہے اُس کو سنبھال رکھ کبھی سر میں سودا سما کوئی ، کبھی ریگزار میں رقص کر کبھی زخم باندھ کے پائوں م...