Skip to main content

Posts

Showing posts from 2022

خلیل جبران

‏سفر کریں کسی کو نہ بتائیں, سچی محبت کی کہانی بسر کریں کسی کو نہ بتائیں, خوشی سے رہیں کسی کو نہ بتائیں, لوگ خوبصورت چیزوں کو برباد کر دیتے ہیں-

سور

‏اچو سورن واريون، ڪريو سور پچار، ڪن گھڻا ڪن ٿورا، ڪانھي سورن ڌار، ڏنا جي ڏاتار، سي جھولي پائي مون جھليا.

پنجابی قطعہ

‏دل نوں سمجھان لئی، دلاسے لئی پیڑ منگی اے کھبے پاسے لئی میں جے مر وی گیا، تے روویں نہ میں تے بنیا واں تیرے ہاسے لئی...  تجمل کلیم

غزل

جن راتوں میں نیند اڑ جاتی ہے کیا قہر کی راتیں ہوتی ہیں  دروازوں سے ٹکرا جاتے ہیں دیواروں سے باتیں ہوتی ہیں  آشوب جدائی کیا کہئے انہونی باتیں ہوتی ہیں  آنکھوں میں اندھیرا چھاتا ہے جب اجیالی راتیں ہوتی ہیں  جب وہ نہیں ہوتے پہلو میں اور لمبی راتیں ہوتی ہیں  یاد آ کے ستاتی رہتی ہے اور دل سے باتیں ہوتی ہیں  گھرگھر کے بادل آتے ہیں اور بے برسے کھل جاتے ہیں  امیدوں کی جھوٹی دنیا میں سوکھی برساتیں ہوتی ہیں  امید کا سورج ڈوبا ہے آنکھوں میں اندھیرا چھایا ہے  دنیائے فراق میں دن کیسا راتیں ہی راتیں ہوتی ہیں  طے کرنا ہیں جھگڑے جینے کے جس طرح بنے کہتے سنتے  بحروں سے بھی پالا پڑتا ہے گونگوں سے بھی باتیں ہوتی ہیں  آنکھوں میں کہاں رس کی بوندیں کچھ ہے تو لہوں کی لالی ہے  اس بدلی ہوئی رت میں اب تو خونیں برساتیں ہوتی ہیں  قسمت جاگے تو ہم سوئیں قسمت سوئے تو ہم جاگیں  دونوں ہی کو نیند آئے جس میں کب ایسی راتیں ہوتی ہیں  جو کان لگا کر سنتے ہیں کیا جانیں رموز محبت کے  اب ہونٹ نہیں ہلنے پاتے ہیں اور پہروں باتیں ہوتی ہیں  ہن...

امام شافعی

‏سب انسان مردہ ہیں، زندہ وہ ہیں جو علم والے ہیں، سب علم والے سوئے پڑے ہیں، بیدار وہ ہیں جو عمل والے ہیں، تمام عمل والے دهوکے میں ہیں، فائدے میں وہ ہیں جو اخلاص والے ہیں، اور سب اخلاص والے خطرے میں ہیں، کامیاب وہ ہیں جو عجز و انکساری والے ہیں. امام شافعیؒ

غزل

تیری آنکھوں کے دریچوں سے گذارے جاتے تو مرے خواب یوں بے موت نہ مارے جاتے اک روایت کی طرح ہم بھی زمیں پر اترے پوچھا جاتا تو ترے دل پہ اتارے جاتے ایک ہی دل تھا سو اس کو تو فدا ہونا تھا ہوتے دس بیس بھی گر تم پہ ہی وارے جاتے اے محبت ! تجھے پھر کون محبت کہتا تیرے مارے بھی جو آسانی سے مارے جاتے ان کو روکو نہ جو کہتے ہیں انہیں کہنے دو ہم اسی شر سے تو ہیں، یار سنوارے جاتے

سندھی شعر

مون پڪ سڃاتا پنھنجا ھئا، ڪي ڌارين سان گڏ ڌاڙي  مِِ پئي واٽ ڏسيائون ويرين کي، ويھي وانگيئڙن جي واڙي مِِ

قطعہ

دیکھو شب ہجر کی درازی دیکھو آشوب الم کی جاں گدازی دیکھو دیکھو تو ذرا نیاز مندی میری اور اس پہ تم اپنی بے نیازی دیکھو

شعر

رکھا ھی گھر میں کیا ھےکہ ترتیب دوں جسے کُچھ خواب ہیں ادھر سے آدھر کر رہا ھوں میں

شعر

تصویر میں نہیں ہو, پھر رنگ کیا بھروں میں ممکن نہیں ہو تم جب , کیا خواہشیں کروں میں

عید کا چاند

مجھکو اک خواب پریشاں سا لگا عید کا چاند میری نظروں میں ذرا بھی نہ جچا عید کا چاند آنکھ نم کرگیا بچھڑے ہوئے لوگوں کا خیال درد ِدل دے کے ہمیں ڈوب گیا عید کا چاند

قطعہ

‏تمہیں ہے رشک میرے اردگرد لوگوں پر  ہمیں یہ دکھ کہ کوئی ایک بھی ہمارا نہیں  بچھڑتے وقت تو آواز بیٹھ جاتی ہے  اسے لگا تھا کہ میں نے اسے پکارا نہیں

قطعہ

‏کڑی تھی دھوڀ مگر اب تو شام ھونے کو ھے —  يہ ظلم وجبر کا موسم تمام ھونے کو ھے —  ترے فراق کے موسم بھی حْتم ھونے کو ہيں —  طويل رات کا بھی احْتتام ھونے کو ھے

میں عشق لکھوں تجھے ہو جائے

چَل آ اِک ایسی نظم کہوں جو لفظ کہوں وہ ہو جائے بس اشک کہوں تو اک آنسو تیرے گورے "گال" کو دھو جاۓ میں "آ" لکھوں تو آ جائے میں "بیٹھ" لکھوں تو آ بیٹھے میرے "شانے" پر سر رکھے تو میں "نیند" کہوں تو سو جائے میں کاغذ پر تیرے "ہونٹ" لکھوں تیرے "ہونٹوں" پر مسکان آئے میں "دل" لکھوں تو دل تھامے میں "گم" لکھوں دل کھو جائے تیرے "ہاتھ" بناوں پنسل سے پھر "ہاتھ" پہ تیرے ہاتھ رکھوں کچھ "الٹا سیدھا" فرض کروں کچھ "سیدھا الٹا" ہو جائے میں "آہ" لکھوں تو ہائے کرے بےچین لکھوں "بےچین" ہو تُو پھر میں بےچین کا "ب" کاٹوں تجھے "چین" زرا سا ہو جائے ابھی "ع" لکھوں تو سوچے مجھے پھر "ش" لکھوں تیری نیند اُڑے جب "ق" لکھوں تجھے کچھ کچھ ہو میں "عشق" لکھوں تجھے ہو جائے

تو میرا یار ہے

اے میرے یار، _____ رنگ نہ بکھرے ان کا ! تیری آنکھوں میں جو ہے خواب سنہرے والا میں بھلا تجھ سے کوئی بات چھپا سکتا ہوں  تو میرا یار ہے، ____ یار بھی گہرے والا!

استخارہ کر لوں

اب اس کے ساتھ رہوں! یا کنارہ کر لوں! ذرا ٹھہر اے دل ! میں استخارہ کر لوں! استخارہ یہ کہتا ہے کہ کنارہ کر لوں! دل یہ کہتا ہے  استخارہ دوبارہ کر لوں!

تم نے نفرت سے جو دیکھا

تو نے نفرت سے جو دیکھا تو مجھے یاد آیا کیسے رشتے تیری خاطر یونہی توڑ آیا ہوں کتنے دھندلے ہیں یہ چہرے جنہیں اپنایا ہے کتنی اُجلی تھیں وہ آنکھیں جنہیں چھوڑ آیا ہوں

قطعہ

‏پیار اکـــ شخص کے اقـــرار سے مشروط نا کر شـــرط اقرار پہ انکار بھی ھــو سکتـــا ھے مجھ سے دامن نہ چھڑا مجھ کو بچا کے رکھ مجھ سے اک روز تجھے پیار بھی ھو سکتا ھے!!

کیسے ہوا

‏جب تم کو، میسر کامل تھے پھر ہجر گوارا کیسے ہوا اب ہم سے کنارا کیسے ہوا اب خواب ہیں کس کے آنکھوں میں پھر کوئی گوارا کیسے ہوا تمہیں عشق دوبارہ کیسے ہوا۔۔۔!!

قطعہ

‏نہیں تھا اپنا مزاج ایسا کہ ظرف کھو کر اَنا بچاتے وگرنہ ایسا جواب دیتے کہ پھر نہ پیدا سوال ہوتے

پھسلی سے سیڑھا

پھسلی سے سیڑھا ----------------------------------------------------------------------------- ذرا سی دیر میں لوگ اپنے اپنے گھروں کو جا رہے تھے . ہم پہلی منزل کے برآمدے میں کھڑے تھے . وہ مولانا بھی ساتھ تھے اور نیچے جھانک رہے تھے . غالباً انتظار تھا انہیں کسی کا . اتنے میں ایک ٹانگہ گزرا. مولانا چلّا کر بولے . "بھئی ٹھہرنا، تمہارا ٹانگی خالہ ہے کیا؟"   ادھر ٹانگے والے نے سنا ہی نہیں، مجھے بڑی ہنسی آئی. لیکن شیطان بڑی سنجیدگی سے بولے.  "قبلہ! اگر آپ یوں فرماتے تو بہتر تھا --- کہ تمہاری خالہ ٹانگی ہے کیا!" مولانا جھینپ گئے، انہوں نے جان بوجھ کر تھوڑا ہی کہا تھا. یونہی منہ سے نکل گیا. ویسے وہ ڈرے ہوئے ضرور تھے.  ٹانگے کا انتظار ہوتا رہا. شیطان مولانا سے بولے "کیوں صاحب، آپ کی بجی میں کیا گھڑا ہے؟" "بارہ بجنے والے ہیں". وہ بولے  "میرے خیال میں اب چلنا چاہئے. سڑک پر ٹانگہ ضرور مل جاۓ گا". اور ہم تینوں نیچے اترنے لگے.  "قبلہ، ان سیڑھیوں کے متعلق بھی ایک پراسرار  قصّہ ہے، جسے میں اس اندھیرے میں سنانا نہیں چاہتا." اور مولانا اور بھی آہس...

قطعہ

‏‎تم کسی اور کو چن لو گے ہمارے ہوتے ہم نے سوچا ہی نہیں تھا یہ تمہارے ہوتے  تُم پہ کھلتا کہ خساروں میں بھی لطف آتا ہے۔۔۔۔ تُم کسی شخص سے گر جیت کے ہارے ہوتے

ہجر

‏ہجر لازم تھا مگر وصل کے لمحے، دُکھ ہے ہم نے دو چار سہی ، اور گزارے ہوتے تُم کو ٹکڑوں میں محبت کا صلہ کیا دیتے تُم کبھی چھوڑ کے دنیا کو ہمارے ہوتے  اُن کی قیمت میں تمہیں دونوں جہاں دے دیتا تُم نے کنگن مِرے ہاتھوں میں اُتارے ہوتے

نظم

سفرِ آخرِ شب بہت قریب سے آئی ہوائے دامنِ گُل کِسی کے رُوئے بہاریں نے حالِ دل پُوچھا کہ اَے فراق کی راتیں گُزارنے والو خُمارِ آخرِ شب کا مزاج کیسا تھا تمھارے ساتھ رہے کون کون سے تارے سیاہ رات میں کِس کِس نے تم کو چُھوڑ دیا بِچھڑ گئے کہ دغا دے گئے شریکِ سفر ؟ اُلجھ گیا کہ وفا کا طِلسم ٹُوٹ گیا؟ نصیب ہو گیا کِس کِس کو قُربِ سُلطانی مِزاج کِس کا یہاں تک قلندرانہ رہا فِگار ہو گئے کانٹوں سے پیرہن کِتنے زمیں کو رشکِ چمن کر گیا لہُو کِس کا سُنائیں یا نہ سُنائیں حکایتِ شبِ غم کہ حرف حرف صحیفہ ہے ، اشک اشک قلَم کِن آنسوؤں سے بتائیں کہ حال کیسا ہے بس اِس قدر ہے کہ جیسے ہیں سرفراز ہیں ہم ستیزہ کار رہے ہیں ، جہاں بھی اُلجھے ہیں شعارِ راہ زناں سے مُسافروں کے قدم ہزار دشت پڑے ، لاکھ آفتاب اُبھرے جبیں پہ گرد ، پلک پر نمی نہیں آئی کہاں کہاں نہ لُٹا کارواں فقِیروں کا متاعِ درد میں کوئی کمی نہیں آئی ( مصطفیٰ زیدی از قبائے سَاز )

قطعہ

‏دل نے کہا کہ اور ہو، میں نے کہا ! نہیں ، نہیں اور اِسی میں کٹ گئے، عشق کے تیس سال بھی لذتِ  زخمِ  تازہ  کو  کتنا  ترس  گیا  تھا  میں اتنا ترس گیا تھا میں، رکھ دی تھی میں نے ڈھال بھی عباس تابش

قطعہ

‏ہِندہ کی طرح جسم اُدھیڑا تھا ہوا نے لیکن مرے سینے سے کلیجہ نہیں نکلا کچھ ہم ترے معیار پہ پورے نہیں اُترے کچھ تُو بھی کہ مشہور تھا جیسا، نہیں نکلا اختر عثمان

قطعہ

وہ مجھ سے پُوچھ رہا تھا بتاؤ کیسا لگا ، تم اگلے زخموں کو چھوڑو یہ گھائو کیسا لگا ، عجب سوال کیا آندھیوں نے پتوں سے ، شجر سے ٹوٹ کر گرنا بتاؤ کیسا لگا

قطعہ

اک ربط لازمی ہو مگر رابطہ نہ ہو یعنی کہ وہ باوفا ہو مگر میرا نہ ہو کتنی عجیب بات ہے دونوں کے درمیاں میلوں کا فاصلہ ہو مگر فاصلہ نہ ہو

قطعہ

مرے عزیز کبھی خوش نہیں ہوئے مجھ سے  تمہیں بھی میری محبت سے مسئلہ رہے گا وہ میرے پیار کو ٹھکرا کے کہہ رہا ہے مجھے تم اچھے بندے ہو سو تم سے رابطہ رہے گا

وہی ہوا نا

وہی ہوا نا ؟ کہا نہیں تھا کہ عہد الفت سمجھ کے باندھو  نبھا سکو گے مجھے سمے کی تمازتوں سے بچا سکو گے بہت کہا تھا  صباحتوں میں بہل نہ جانا مجھے گرا کے سنبھل نہ جانا بدلتی رت میں بدل نہ جانا بہت کہا تھا بہل گئے نا کہا نہیں تھا ؟ سنبھل گئے نا وہی ہوا نا  بدل گئے نا.

قطعہ

تم سے ملے، مل کے بچھڑے، بچھڑ کر پھر ملے ایسی بھی قربتیں رہیں، ایسے بھی فاصلے رہے تو بھی نہ مل سکا ہمیں اور یہ عمر بھی رائیگاں گئی تجھ سے تو خیر عشق تھا، خود سے بڑے گلے رہے ۔

آخری بار ملو

آخری بار ملو آخری بار ملو ایسے کہ جلتے ہوئے دل راکھ ہوجائیں، کوئی اور تقاضا نہ کریں چاک وعدہ نہ سِلے، زخمِ تمنّا نہ کِھلے سانس ہموار رہے شمع کی لَو تک نہ ہِلے باتیں بس اتنی کہ لمحے انہیں آکر گِن جائیں آنکھ اٹھائے کوئی اُمید تو آنکھیں چھن جائیں اس ملاقات کا اس بار کوئی وہم نہیں جس سے اِک اور ملاقات کی صورت نکلے اب نہ ہیجان و جنوں کا، نہ حکایات کا وقت اب نہ تجدید وفا کا، نہ شکایات کا وقت لُٹ گئی شہرِ حوادث میں متاعِ الفاظ اب جو کہنا ہے تو کیسے کوئی نوح کہیے آج تک تم سے رگِ جاں کے کئی رشتے تھے کل سے جو ہو گا اُسے کون سا رشتہ کہیے پھر نہ دہکیں گے کبھی عارض و رخسار، مِلو ماتمی ہیں دِم رخصت درو دیوار، ملو پھر نہ ہم ہوں گے، نہ اقرار، نہ انکار، مِلو آخری بار مِلو مصطفی زیدی

قطعہ

نکل کے شور سے آیا تھا اک درخت تلے  مگر یہاں تو پرندے بھی کتنا بولتے ہیں  اسے کہا تھا کہ لوگوں سے گفتگو نہ کرے   اب اس کے شہر کے سب لوگ میٹھا بولتے ہیں 

قطعہ

بن کے تیغِ غضب جب ملیں گے آپ  یوں گلے مجھ سے کب ملیں گے آپ  دمِ رخصت یہ چھیڑ تو دیکھو  مجھ سے کہتے ہیں کب ملیں گے آپ  نواب داغ