Skip to main content

Posts

Showing posts from 2020

غزل

دوست بھی ملتے ہیں محفل بھی جمی رہتی ہے تو نہیں ہوتا تو ہر شے میں کمی رہتی ہے اب کے جانے کا نہیں موسم گر یہ شاید مسکرائیں بھی تو آنکھوں میں نمی رہتی ہے عشق عمروں کی مسافت ہے کسے کیا معلوم؟ کب تلک ہم سفری ہم قدمی رہتی ہے کچھ دلوں میں کبھی کھلتے نہیں چاہت کے گلاب کچھ جزیروں پہ سدا دھند جمی رہتی ہے

یہ ‏ترک ‏تعلق ‏کا ‏کیا ‏تذکرہ ‏ہے ‏

کر رہی درحقیقت کام ساقی کی نظر مے کدے میں گردش ساغر برائے نام ہے پھروں ڈھونڈھتا میکدہ توبہ توبہ مجھے آج کل اتنی فرصت نہیں ہے سلامت رہے تیری آنکھوں کی مستی مجھے مہ کشی کی ضرورت نہیں ہے گرہ بندی گلہ نہیں جو گریزاں ہیں چند پیمانے نگاہ یار سلامت ہزار میخانے سرور چیز کی مقدار پر نہیں موقوف شراب کم ہے تو ساقی نظر ملا کر پلا جام پر جام پینے سے کیا فائدہ؟ رات گزری تو سار ی اتر جائیگی تیری نظروں سے پی ہے خدا کی قسم عمر ساری نشے میں گزر جائے گی یہ ترک تعلق کا کیا تذکرہ ہے؟ تمھارے سوا کوئی اپنا نہیں ہے اگر تم کہو تو میں خود کو بھلادوں تمھیں بھول جانے کی طاقت نہیں ہے گرہ بندی اک بار عقل نے چاہا تھا تجھ کو بھلانا سوبار جنوں نے تیری تصویر دکھادی ہر اک موڑ پر اک نئی مات کھائی رہی دل کی دل میں زباں پر نہ آئی کئے ہیں کچھ ایسے کرم دوستوں نے کہ اب دشمنوں کی ضرورت نہیں ہے گرہ بندی ہمیشہ میرے سامنے سے گزرنا نگاہیں چراکر مجھے دیکھ لانا میری جان تم مجھ کو اتنا بتادو یہ کیا چیز ہے گر محبت نہیں ہے ہزاروں تمنائیں ہوتی ہیں دل میں ہماری تو بس اک تمنا یہی ہے مجھے اک دفعہ اپنا کہہ کہ پکارو بس اسکے سوا کوئی حسرت نہی...

مٹی

‏مٹی دا توں، مٹی ہونا، کاہدی  بلے بلے اج مٹی دے اتے بندیا، کل مٹی دے تھلے بابا بلھے شاہ

میرے ‏شوق ‏دا ‏نہیں ‏اعتبار ‏تینوں ‏

مرزا غالب کی فارسی کی وہ غزل جس کا صوفی تبسم نے منظوم پنجابی ترجمہ کیا - اردو ترجمہ حمید یزدانی نے کیا ہے - اس غزل کا پروفیسر رالف رسل نے انگلش میں بھی ترجمہ کیا -  *فارسی*  زمن گَرَت نہ بُوَد باور انتظار بیا بہانہ جوئے مباش و ستیزہ کار بیا  *پنجابی ترجمہ*  میرے شوق دا نہیں اعتبار تینوں، آ جا ویکھ میرا انتظار آ جا  اینوں لڑن بہانڑے لبھنا ایں، کیہ توں سوچنا ایں سِتمگار آ جا  *اردو ترجمہ*  میں تیرے انتظار میں ہوں، اگر تجھے اس کا یقین نہیں ہے تو آ اور دیکھ لے۔ اس ضمن میں بہانے مت تلاش کر، بے شک لڑنے جھگڑنے کا طور اپنا کر آ۔  *فارسی*  وداع و وصل جداگانہ لذّتے دارَد ہزار بار بَرَو، صد ہزار بار بیا  *پنجابی*  بھانویں ہجر تے بھانویں وصال ہووے ،وکھو وکھ دوہاں دیاں لذتاں نیں میرے سوہنیا جا ہزار واری ،آ جا پیاریا تے لکھ وار آجا  *اردو*  فراق اور وصل دونوں میں اپنی اپنی ایک لذت ہے، تو ہزار بار جا اور لاکھ بار آ۔  *فارسی*  رواجِ صومعہ ہستیست، زینہار مَرَو متاعِ میکدہ مستیست، ہوشیار بیا  *پنجابی*  ایہہ رواج اے مسجدا...

غزل

اک عالمِ حیرت ہے فنا ہے نہ بقا ہے حیرت بھی یہ حیرت ہے کہ کیا جانیے کیا ہے سو بار جلا ہے تو یہ سو بار بنا ہے ہم سوختہ جانوں کا نشیمن بھی بلا ہے ہونٹوں پہ تبسم ہے کہ اک برقِ بلا ہے آنکھوں کا اشارہ ہے کہ سیلابِ فنا ہے سنتا ہوں بڑے غور سے افسانۂ ہستی کچھ خواب ہے کچھ اصل ہے کچھ طرزِ ادا ہے ہے تیرے تصور سے یہاں نور کی بارش یہ جانِ حزیں ہے کہ شبستانِ حرا ہے اصغر گونڈوی

شعر

کیا یہ بھی میں بتلا دوں تُو کون ہے میں کیا ہوں، تُو   جانِ   تماشہ    ہے    میں   محوِ   تماشہ  ہوں..

قطعہ

‏بے وفا بھی جہاں میں وفا ڈھونڈتے ہیں بے حیا  دوسروں  میں حیا ڈھونڈتے ہیں  اپنے عیبوں کو  کوئی نہیں دیکھتا  ہے  دوسروں کے ہنر میں خطا ڈھونڈتے ہیں   فوق کاشمیری

کلیجہ ‏بیچ ‏آیا ‏ہوں ‏

کسی کی رسم کی خاطر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔کلیجہ بیچ آیاہوں!!! میں قربانی کے دھوکے میں۔۔۔۔ ۔کھلونا بیچ آیا ہوں!!! وہ منڈی تھی کسے فرست  ۔۔۔وہاں رشتے سمجھ پانا !!! وہ کہتے تھے کہ مہنگاہے۔۔۔۔۔میں سستا بیچ آیاہوں!!! ٹریفک سے اٹی گلیوں میں ۔۔۔۔۔۔۔شہزادہ پڑا ہو گا!!! وہ اسماعیل تھا میرا۔۔۔۔۔۔۔میں بیٹا بیچ آیا ہوں!!! نا معلوم

سب ‏فضول ‏باتیں ‏ہیں ‏

تم ہنسو تو دن نکلے، چپ رہو تو راتیں ہیں​ کس کا غم، کہاں کا غم، سب فضول باتیں ہیں​ ​ اے خلوص میں تجھ کو کس طرح بچاؤں گا​ دشمنوں کی چالیں ہیں، ساتھیوں کی گھاتیں ہیں​ ​ تم پہ ہی نہیں موقوف، آج کل تو دنیا میں​ زیست کے بھی مذہب ہیں، موت کی بھی ذاتیں ہیں​ ​

چنبیلی ‏کی ‏خوشبو ‏

مری چنبیلی کی نرم خوشبو ہوا کے دھارے پہ بہہ رہی ہے ہوا کے ہاتھوں میں کھیلتی ہے ترا بدن ڈھونڈنے چلی ہے مری چنبیلی کی نرم خوشبو مجھے تو زنجیر کر چکی ہے الجھ گئی ہے کلائیوں میں مرے گلے سے لپٹ گئی ہے وہ رات کی کہر میں چھپی ہے سیاہ خنکی میں رچ رہی ہے گھنیرے پتوں میں سرسراتی ترا بدن ڈھونڈنے چلی ہے۔۔۔!!

قطعہ ‏

ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻃﺮﻑ ﺗﮭﯽ ﻟﻮﭦ ﺑﺮﺍﺑﺮ ﻟﮕﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺟﻮ ﮐﭽﮫ ﮐﺴﯽ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﻟﮕﺎ ﻟﻮﭨﺘﺎ ﺭﮨﺎ ﺯﯾﺪﯼ ﻭﮦ ﻟﻮﭨﺘﮯ ﺭﮨﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﻗﺮﺍﺭ ﮐﻮ ﻣﯿﮟ ﺑﮯ ﻗﺮﺍﺭﯾﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﺰﮮ ﻟﻮﭨﺘﺎ ﺭﮨﺎ ﻧﺎﺻﺮ ﺯﯾﺪﯼ

شعر

کسی کے میلے کفن کی میں بات کیسے کروں کہ میری قبر کے اپنے بڑے مسائل ہیں جبّار واصف

نظم

یوں تو ہر رشتہ کا انجام یہی ہوتا ہے پھول کھلتا ہے مہکتا ہے بکھر جاتا ہے تم سے ویسے تو نہیں کوئی شکایت لیکن شاخ ہو سبز تو حساس فضا ہوتی ہے ہر کلی زخم کی صورت ہی جدا ہوتی ہے تم نے بیکار ہی موسم کو ستایا ورنہ پھول جب کھل کے مہک جاتا ہے خود بہ خود شاخ سے گر جاتا ہے 

بات ‏سمجھ

تجھے نہ آئیں گی مفلس کی مشکلات سمجھ میں چھوٹے لوگوں کے گھر کا بڑا ہوں، بات سمجھ مرے علاوہ ہیں چھ لوگ منحصر مجھ پر مری ہر ایک مصیبت کو ضرب سات سمجھ فلک سے کٹ کے زمیں پر گری پتنگیں دیکھ تو ہجر کاٹنے والوں کی نفسیات سمجھ شروع دن سے ادھیڑا گیا ہے میرا وجود جو دِکھ رہا ہے اسے میری باقیات سمجھ کتاب عشق میں ہر آہ ، ایک آیت ہے اور آنسوؤں کو حروف مقطعات سمجھ کریں یہ کام تو کنبے کا دن گزرتا ہے ہمارے ہاتھوں کو گھر کی گھڑی کے ہاتھ سمجھ دل و دماغ ضروری ہیں زندگی کے لئے یہ ہاتھ پاؤں اضافی سہولیات سمجھ نامعلوم

اللہ ‏کی ‏طرف ‏دوڑو

بِسْمِ اللّـٰهِ الرَّحْـمٰنِ الرَّحِيْـمِ فَفِرُّوٓا اِلَى اللّـٰهِ ۖ اِنِّىْ لَكُمْ مِّنْهُ نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ پھر اللہ کی طرف دوڑو، بے شک میں تمہارے لیے اللہ کی طرف سے کھلم کھلا ڈرانے والا ہوں۔ سورۃ الذاریات:50 تفسیر آیات: 1۔ فَفِرُّوۡۤا اِلَی اللّٰہِ: ہر جانب سے خطرات میں گھرا ہوا انسان ایک پناہ گاہ کا محتاج ہے۔ خواہشات، مفادات اور گمراہی کی طرف لے جانے والے بے شمار عوامل سے جان چھڑا کر مہربان رب کی امن و سکون والی پناہ گاہ کی طرف بھاگو۔ اس کی وسیع ترین رحمت کے دامن میں جگہ تلاش کرو۔ نفس پرستی، گناہوں اور شرک و کفر سے دوری اختیار کرو اور اللہ کی پناہ میں جاؤ۔ 2۔ اِنِّیۡ لَکُمۡ مِّنۡہُ نَذِیۡرٌ مُّبِیۡنٌ: اے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! لوگوں سے کہ دیں کہ میں قبل از وقت تمہیں تنبیہ کرنے والا ہوں کہ اللہ کی پناہ میں نہ جانے کی صورت میں تم کس دائمی عذاب اور ابدی خسارے سے دوچار ہو جاؤ گے۔ گویا بتایا جا رہا ہے کہ شیطان تمہارے پیچھے ہے۔ نہ معلوم کس وقت آکر تمہیں دبوچ لے، اس لیے جلدی کرو۔ بھاگو اور ایک لمحہ ضائع کیے بغیر اللہ کی پناہ میں آجاؤ۔ جسے وہاں پناہ مل جائے اسے شیطان کی وسوسہ ان...

ہمارے ‏گائوں ‏میں

عجیب لوگ تھے وہ تتلیاں بناتے تھے سمندروں کے لیے مچھلیاں بناتے تھے مرے قبیلے میں تعلیم کا رواج نہ تھا مرے بزرگ مگر تختیاں بناتے تھے وہی بناتے تھے لوہے کو توڑ کر تالا پھر اُس کے بعد وہی چابیاں بناتے تھے فضول وقت میں وہ سارے شیشہ گر مل کر سہاگنوں کے لیے چوڑیاں بناتے تھے ہمارے گاؤں میں دو چار ہندو درزی تھے نمازیوں کے لیے ٹوپیاں بناتے تھے ؎ لیاقتؔ جعفری 

A Leaking Bucket

1. You wear abaya and hijāb but with perfume and makeup. ( a leaking bucket ) 2. You're following the Sunnah and have a beard but you don't lower your gaze. (A leaking bucket) 3. You pray all of your prayers on time but you have no khushū at all. (A leaking bucket) 4. You're very kind to people and speak with them gently but with your family you're always harsh. (A leaking bucket) 5. You honour and treat your guests well but when they leave, you gossip about them and talk about their flaws. (A leaking bucket) 6. You give alot of sadaqah to the poor but you humiliate them and hurt them. (A leaking bucket) 7. You stand up for tahajjud at night, fast and reads Qur'ān everyday but you cut your family ties. (A leaking bucket) 8. You fast and have sabr for the pangs of hunger and thirst but you swear,  insult,  curse. (A leaking bucket) 9. You help others but you're doing it to gain something from them and not doing those acts of kindness for the sake of Allāh's G...

اج ‏اساں ‏اک ‏دنیا ‏ویچی

اَج اَساں اِک دنیا ویچی تے اِک دین ویہاج لیہائے گل کفر دی کیتی سُفنے دا اِک تھان اُنڑایا گز کوں کپڑا پاڑ لیا  تے عمر دی چولی سیتی اَج اَساں اَنبر دے گھڑیوں بدل دی اِک چَپنی لاھی گُھٹ چاننڑی پیتی گیتاں نال چُکا جاواں گے ایہہ جو اَساں موت دے کولوں گھڑی اُدھاری لِتی اَج اَساں اِک دنیا ویچی تے اِک دین ویہاج لیہائے گل کفر دی کیتی. ”امرتا پریتم“

چلو ‏کسی ‏کے ‏گھر ‏چلتے ‏ہیں ‏

کبھی کبھی ایک شدید خواہش .... چلو کسی کے گھر چلتے ہیں جس کے گھر کے دروازے پر دربانوں کا راج نہ ہو جس کے گھر پر یوں جانے میں ہم کو بھی کچھ لاج نہ ہو جس کے گھر کی دیواروں پر اُکتاہٹ کا رنگ نہ ہو جس کے ہونٹوں پر خوشبو ہو لیکن دل میں زنگ نہ ہو جس کی پیشانی چوڑی ہو لیکن سینہ تنگ نہ ہو جس کی روشن روشن آنکھیں ہم کو دیکھ کے کھل جائیں اتنی خوشی سے ملے وہ ہم سے جیسے صدیوں کے بچھڑے دو یار اچانک مل جائیں چلو کسی کے گھر چلتے ہیں ۔

میلیاں ‏اکھاں ‏دھو ‏نہ ‏لیے

مَیلیاں اکھاں۔۔ دھو نہ لئیے،؟ صابن وچ۔۔۔۔ ڈبو نہ لئیے،؟ ایتھے، اوہنُوں تَکیا سی میں ایتھے کنڈے-- بو نہ لئیے،؟ شیخاں نے۔۔۔ بریانی پکی اج اے کٹا۔ چو نہ لئیے،؟ چوتھی سوہنی دا دل لے کے وڈا ہار۔۔۔۔۔ پرو نہ لئیے،؟ جے کر تھیلا۔۔۔۔۔ راشن لبے اک دی تھاں تے۔ دو نہ لئیے،؟ ایتھے آن تے پابندی اے ایتھے جھٹ۔ کھلو نہ لئیے،؟ واڈی کرنی۔۔ کَنکاں دی اے چھولے اج فیر۔۔ بو نہ لئیے،؟ جُگنو تارے۔ ماں دی مُورت مُٹھی وچ۔۔۔ لکو نہ لئیے،؟؟ کَلیاں دا اک گجرا گُھن کے سجن دی۔۔ خَشبو نہ لئیے،؟ بھائیا تیرے۔۔ دُکھ نئیں مُکنے تیری جان نُوں۔ رو نہ لئیے،؟

دروازہ ‏جو ‏کھولا ‏تو

دروازہ جو کھولا تو نظر آئے وہ کھڑے وہ حیرت ہے مجھے ، آج کدھر بھُول پڑے وہ بھُولا نہیں دل ، ہجر کے لمحات کڑے وہ راتیں تو بڑی تھیں ہی، مگر دن بھی بڑے وہ! کیوں جان پہ بن آئی ہے ، بِگڑا ہے اگر وہ اُس کی تو یہ عادت کے ہواؤں سے لڑے وہ الفاظ تھے اُس کے کہ بہاروں کے پیامات خوشبو سی برسنے لگی، یوں پھُول جھڑے وہ ہر شخص مجھے ، تجھ سے جُدا کرنے کا خواہاں سُن پائے اگر ایک تو دس جا کے حروف جڑے وہ بچے کی طرح چاند کو چھُونے کی تمنا دِل کی کوئی شہ دے دے تو کیا کیا نہ اڑے وہ طوفاں ہے تو کیا غم، مجھے آواز تو دیجے کیا بھُول گئے آپ مرے کچے گھڑے وہ ۔۔۔۔۔

نظم

رات بھر سرد ھوا چلتی رہی رات بھر ھم نے الاؤ تاپا مَیں نے ماضی سے کئی خشک سی شاخیں کاٹِیں تم نے بھی گزرے ہوئے لمحوں ک پتّے توڑے مَیں نے جیبوں سے نکالِیں سبھی سُوکھی نظمیں  تم نے بھی ھاتھوں سے مُرجھائے ھوئے خط کھولے اپنی اِن آنکھوں سے مَیں نے کئی مانجے توڑے اور ھاتھوں سے کئی باسی لکیریں پھینکِیں تم نے ۔۔ پلکوں پہ نمی سُوکھ گئی تھی ۔۔۔ سو گِرا دی  رات بھر جو بھی مِلا  اُگتے بدن پر ھم کو کاٹ کے ڈال دیا جلتے ھوئے شعلوں میں  رات بھر پُھونکوں سے ھر لَو کو جگائے رکھا  اور دو جِسموں کے اِیندھن کو جلائے رکھا  رات بھر بُجھتے ھوئے رِشتے کو تاپا ھم نے ۔۔۔۔ گلزار ۔۔۔۔۔۔

ہونی ‏دے ‏حیلے

کس دا دوش سی کس دا نئیں سی ایہہ گلاں ہُن کرن دیاں نئیں ویلے لنگھ گئے توبہ والے راتاں ہوکے بھرن دیاں نئیں جو ہویا ایہہ ہونا ای سی تے ہونی روکیاں رُکدی نئیں اِک واری جدوں شروع ہو جاوے گل فیر اینویں مُکدی نئیں کُجھ اُنج وی راہواں اوکھیاں سن کُجھ گل وچ غم دا طوق وی سی کُجھ شہر دے لوک وی ظالم سن کُجھ مینوں مرن دا شوق وی سی (منیر نیازی)

اے ‏مرے ‏کم ‏نشاں

اے مرے کم نشاں! گردش ِوقت کی دسترس سے جُدا  حلقہ چشم و لب سے بھی کچھ ماورا  میں نے سوچا تجھے  روشنی کے سبھی دائرے توڑ کر  اپنے کُنجِ قلم کی دھنک چھوڑ کر  میں نے لکھا تجھے! بھول کر اپنے نام و نسب کا شرف  حُسن ِتقدیسِ مذہب سے بھی اُس طرف  میں نے پوجا تجھے! تجھ سے واقف نہ تھا جب ضمیر جہاں  ایسے لمحوں میں بھی اے مرے کم نشاں  میں نے چاہا تجھے! اب مگر سوچتا ہوں بہ نوک ِسناں  صحنِ مقتل میں کیوں ہمرہِ دشمناں ...!! میں نے دیکھا تجھے ؟؟ محسن نقوی

بات ‏بات ‏میں ‏اتنا ‏بدلتا ‏جاتا ‏ہے

وہ بات بات میں اتنا بدلتا جاتا ہے کہ جس طرح کوئی لہجہ بدلتا جاتا ہے یہ آرزو تھی کہ ہم اس کے ساتھ ساتھ چلیں مگر وہ شخص تو رستہ بدلتا جاتا ہے رتیں وصال کی اب خواب ہونے والی ہیں کہ اس کی بات کا لہجہ بدلتا جاتا ہے رہا جو دھوپ میں سر پر مرے وہی آنچل ہوا چلی ہے تو کتنا بدلتا جاتا ہے وہ بات کر جسے دنیا بھی معتبر سمجھے تجھے خبر ہے زمانہ بدلتا جاتا ہے 

قطعہ

ریل کے شور مچاتے ہوئے انجن کے طفیل رونے والوں کی طرف دھیان کہاں جاتا ہے  تیرے منسوب گداگر نے یہیں رہنا ہے پھٹ بھی جائے تو،،،، ،،گریبان کہاں جاتا ہے آزاد حسین آزاد

لطیفہ

جج: تم پر الزام ہے کہ تم نے پچیس سال تک اپنی  بیوی کو ڈرا دھمکا کے اپنے قبضے میں کیے رکھا۔ ملزم: لیکن جناب ۔۔۔۔۔  جج: صفائی نہیں طریقہ بتائو طریقہ ۔۔۔🤣🤣🤣

نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم

سارے لفظوں میں ایک لفظ یکتا بہت اور پیارا بہت سارے ناموں میں اک نام ﷺ سوہنا بہت اور ہمارا بہت اس کی شاخوں پہ آ کر زمانوں کے موسم بسیرا کریں اک شجر ﷺ جس کے دامن کا سایا بہت اور گھنیرا بہت ایک آہٹ کی تحویل میں ہیں اس زمیں آسماں کی حدیں ایک آواز دیتی ہے پہرا بہت اور گہرا بہت  جس دیے کی توانائی ارض و سما کی حرارت بنی اس دیے ﷺ کا ہمیں بھی حوالہ بہت اور اجالا بہت میری بینائی اور مرے ذہن سے محو ہوتا نہیں میں نے روئے محمد ﷺ کو سوچا بہت اور چاہا بہت  میرے ہاتھوں سے اور میرے ہونٹوں سے خوشبو جاتی نہیں  میں نے اسم محمد ﷺ کو لکھا بہت اور چوما بہت 

پھر یوں ہوا کہ

پھر یوں ہوا کہ دل میں کسی کو بسا لیا، پھر یوں ہوا کہ، خواب سجائے تمام عُمر۔۔! ﭘﮭﺮ ﯾﻮﮞ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﻧِﮑﻠﮯ ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﺗﻼﺵ ﻣﯿﮟ، ﭘﮭﺮ ﯾﻮﮞ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﻧﮧ ﭘﺎﺋﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﻋُﻤﺮ۔۔! ﭘﮭﺮ ﯾﻮﮞ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﺑﺎﺗﻮﮞ ﻣﯿﮟ، ﮨﻢ ﺍُﺱ ﮐﯽ ﺁﮔﺌﮯ، ﭘﮭﺮ ﯾﻮﮞ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﺩﮬﻮﮐﮯ ﮨﯽ ﮐﮭﺎﺋﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﻋُﻤﺮ۔۔! پھر یوں ہوا کہ دکھ ہمیں محبوب ہو گئے، پھر یوں ہوا کہ، دل سے لگائے تمام عُمر۔۔! پھر یوں ہوا کہ اور کسی کے نہ ہو سکے، پھر یوں ہوا کہ وعدے نبھائے تمام عُمر۔۔! پھر یوں ہوا کہ بیٹھ گئے، راہ میں غیاث، پھر یوں ہوا کہ وہ بھی نہ آئے تمام عُمر۔۔! پھر یوں ہوا کہ گناہ کی طاقت نہیں رہی، ہم جیسے کتنے لوگ بھی درویش ہوگئے۔۔!

پھر یوں ہوا

پھر یوں ہوا کے ساتھ تیرا چھوڑنا پڑا۔۔ ثابت ہوا کے لازم و ملزوم کچھ نہیں۔۔! پھر یوں ہوا کہ راستے یکجا نہیں رہے، وہ بھی انا پرست تھا میں بھی انا پرست۔۔! پھر یوں ہوا کہ ہاتھ سے، کشکول گر گیا، خیرات لے کے مجھ سے چلا تک نہیں گیا۔۔! ﭘﮭﺮ ﯾﻮﮞ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﺩﺭﺩ ﮐﯽ ﻟﺬﺕ ﺑﮭﯽ ﭼﮭﻦ ﮔﺌﯽ، ﺍﮎ ﺷﺨﺺ ﻣﻮﻡ ﺳﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﭘﺘﮭﺮ ﺑﻨﺎ ﮔﯿﺎ۔۔! پهر یوں ہوا کہ زخم نے جاگیر بنا لی، پهر یوں ہوا کہ درد مجھے راس آ گیا۔۔! پھر یوں ہوا کہ وقت کر تیور بدل گئے، پھر یوں ہوا کہ راستے یکسر بدل گئے۔۔! پھر یوں ہوا کہ حشر کے سامان ہوگئے، پھر یوں ہوا کہ شہر بیاباں ہوگئے۔۔! پھر یوں ہوا کہ راحتیں کافور ہوگئیں، پھر یوں ہوا کہ بستیاں بے نور ہوگئیں۔۔! پھر یوں ہوا کہ کوئی شناسا نہیں رہا، پھر یوں ہوا کہ درد میں شدت نہیں رہی۔۔! پھر یوں ہوا کہ ہو گیا مصروف وہ بہت، اور ہمیں یاد کرنے کی فرصت نہیں رہی۔۔! اب کیا کسی کو چاہیں کہ ہم کو تو ان دنوں، خود اپنے آپ سے بھی محبت نہیں رہی۔۔! پھر یوں ہوا کہ دل میں کسی کو بسا لیا، پھر یوں ہوا کہ، خواب سجائے تمام عُمر۔۔! ﭘﮭﺮ ﯾﻮﮞ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﻧِﮑﻠﮯ ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﺗﻼﺵ ﻣﯿﮟ، ﭘﮭﺮ ﯾﻮﮞ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﻧﮧ ﭘﺎﺋﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﻋُﻤﺮ۔۔! ﭘﮭﺮ ﯾﻮﮞ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﺑﺎﺗﻮﮞ ﻣﯿﮟ...

مجھے اس گلی کا گدا کہو

نہ میرے سخن کو سخن کہو نہ مری نوا کو نوا کہو میری جاں کو صحنِ حرم کہو مرے دل کو غارِ حرا کہو میں لکھوں جو مدحِ شہہِ اُمم ﷺ اور جبرائیل بنیں قلم میں ہوں ایک ذرہء بےدرہم مگر آفتابِ ثناء کہو طلبِ شہہِ عربی کروں میں طوافِ حُبِ نبی ﷺ کروں مگر ایک بےادبی کروں مجھے اُس گلی کا گدا کہو نہ دھنک، نہ تارا، نہ پھول ہوں قدمِ حضور ﷺ کی دُھول ہوں میں شہیدِ عشقِ رسول ﷺ ہوں میری موت کو بھی بقا کہو جو غریب عشق نورد ہو اُسے کیوں نہ خواہشِ درد ہو میرا چہرہ کتنا ہی زرد ہو میری زندگی کو ہرا کہو ملے آپ سے سندِ وفا ہوں بلند مرتبہء صفا میں کہوں محمدِ مصطفیٰ ﷺ کہو تم بھی صلے علیٰ کہو وہ پیام ہیں کہ پیامبر وہ ہمارے جیسا نہیں مگر وہ ہے ایک آئینہء بشر مگر اُس کو عکسِ خدا کہو یہ مظفر ایسا مکین ہے کہ فلک پہ جس کی زمین ہے یہ سگِ براق نشین ہے اسے شہسوارِ صبا کہو (مظفر وارثی)

نمی دانم

نمی دانم چہ منزل بود ، شب جاۓ کہ من بودم بہ ہر سو رقص بسمل بود ، شب جاۓ کہ من بودم نہیں معلوم وہ کون سی منزل تھی جہاں گذشتہ رات میں تھا  ہر طرف  رقص بسمل تھا جہاں گذشتہ رات میں تھا  پری پیکر نگارے ، سرو قدے لالہ رخسارے سراپا آفت دل بود ، شب جاۓ کہ من بودم  محبوب پری پیکر تھا اس قدر سرو کی طرح اور رخسار گل لالہ جیسے تھے  دل کے لیۓ سراپا آفت تھا گذشتہ رات جہاں میں تھا  رقیباں گوش برآواز ، او در ناز و من ترساں سخن گفتن چہ مشکل بود ، شب جاۓ کہ من بودم رقیب آواز پر کان لگاۓ ہوۓ تھے جب کہ وہ محبوب ناز میں تھا اور میں خوف ذدہ تھا  وہاں بات کرنا ( کیا کہوں ) کس قدر مشکل تھا گذشتہ رات جہاں میں تھا  خدا خود میر مجلس بود ، اندر لامکاں خسرو محمد۴ شمع محفل بود ، شب جاۓ کہ من بودم  اے خسرو ، لامکاں میں خدا خود میر مجلس تھا اور حضرت محمد صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اس محفل کی شمع تھے گذشتہ رات جہاں میں تھا  کلام : حضرت امیر خسرو رحمتہ اللہ علیہ ترجمہ شہزادآحمد عثمانی

Children's Mental Health

A silent tragedy There is a silent tragedy that is developing day after day in our homes and concerns our most precious jewels: our children. Our children are in a devastating emotional state. Over the past 15 years, researchers have given us increasingly alarming statistics about a sharp and steady increase in childhood mental illness that is now reaching epidemic proportions: Statistics don't lie: • 1 in 5 children have mental health problems • A 43% increase in ADHD was noted • A 37% increase in adolescent depression was note What is going on and what are we doing wrong? Today's children are over-stimulated and overloaded with material objects, but they are deprived of what is truly fundamental for a healthy and happy childhood, such as: • Emotionally available parents • Clearly defined limits • Responsibility • Balanced nutrition and good sleep quality • Movement in the open air • Creative play, social interaction, unstructured play opportunities and spaces for boredom. Ins...

نا اھل اسان جو مالی آ

نا اھل اسان جو مالي آ معصوم وڻن جو ڇا ٿيندو بد ذوق جي ھٿ ۾ باغ رھيو ھن منھنجي چمن جو ڇا ٿيندو ڪانون کي اجازت ڪان ڪان جي بلبل جي صدا تي بندش آ ھر شاخ تي ظالم ويٺو آ مرغان چمن جو ڇا ٿيندو ھي نرم ۽ نازڪ ٻئي ھٿڙا مضبوط گلو خنجر جو وزن تون منھنجي ڪسڻ جو فڪر نہ ڪر پر تنھنجي ھٿن جو ڇا ٿيندو جتي مور ھئا اتي ڪانٔ ڪٻر ڍڀ ٿو پوکين جٿي آھي ڇٻر خراساني کي ناھي خبر ھن منھنجي متاء جو ڇا ٿيندو

Moringa Tree

سہانجنا_سوانجھڙو_Moringa  شاہ صاحب نے اس درخت کی طرف اشارہ کر کے بتایا کہ اس درخت کے خشک پتے ہماری خوراک ہوتی تھی۔ ہم صبح ہتھیلی بھر کر پانی کے ساتھ یہ کھا لیتے تھے اور پھر دن بھر کسی چیز کی طلب نہیں ہوتی تھی اور نہ ہی کوئی کمزوری ہوتی۔ یہ ہم سادھوئوں کی خوراک تھی میں ایک دن انٹرنیٹ پر نئی تحقیق کی فائلیں چھان رہا تھا کہ میری نظر ایک فائل پر پڑی The Miracle Tree  ’’یعنی معجزاتی درخت‘‘ میں فوراً اس کی طرف لپکا اور اسے پڑھنا شروع کیا، کہ یہ معجزاتی درخت 300بیماریوں کا کامل علاج ہے جو کسی نہ کسی غذائی کمی کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ اس درخت کے خشک پتے 50گرام طاقت میں برابر ہیں۔ 4گلاس دودھ، 8مالٹے، 8 کیلے، 2پالک کی گڈیاں، ۲کپ دہی،18ایمائنو ایسڈز، 36 وٹامن او 96اینٹی اوکسیڈینٹ ‘میں حیرت سے اسے دیکھ رہا تھا کہ یہ پودا کتنا طاقتور ہے، سبحان اللہ، وٹامن اے گاجر میں بہت زیادہ ہے مگر اس میں چار گناہ زیادہ ہے۔ فولاد پالک میں بہت زیادہ ہے مگر اس میں چار گناہ زیادہ ہے۔ پوٹاشیم کیلے میں بہت زیادہ ہے مگر اس میںتین گنا زیادہ ہے۔ وٹامن سی مالٹے میں بہت زیادہ ہے مگر اس میں سات گنا زیادہ ہے اسی طرح ان ا...

دریدہ پیرہنی

فسادِ ذات دریدہ پَیرہَنی کل بھی تھی اور آج بھی ہے مگر وُہ اورسبب تھا یہ اَور قِصہ ہے یہ رات اور ہے، وہ رات اور تھی ، جس میں ہر ایک اشک میں سارنگیاں سی بجتی تِھیں عجیب لذت ِ نظارہ تھی حجاب کے ساتھ ہر ایک زخم مہکتا تھا ماہتاب کے ساتھ یہی حیاتِ گُریزاں بڑی سہانی تھی نہ تم سے رنج نہ اپنے سے بد گُمانی تھی شکایت آج بھی تم سے نہیں کہ محرومی تمھارے در سے نہ ملتی تو گھر سے مل جاتی تمھارا عہد اگر اُستوار ہی ہوتا تو پھر بھی دامنِ دل تار تار ہی ہوتا خود اپنی ذات ہی ناخُن، خود اپنی ذات ہی زخم خُود اپنا دل رگِ جاں اَور خُود اپنا دِل نِشتر فساد ِ خلق بھی خُود اور فساد ِ ذات بھی خود سفر کا وقت بھی خود، جنگلوں کی رات بھی خود تمھاری سنگدلی سے خفا نہیں ہوتے کہ ہم سے اپنے ہی وعدے وفا نہیں ہوتے (مصطفیٰ زیدی)

کلام حضرت امیر خسرو

زی حالِ مسکیں ، مکن تغافل ، ورائے نیناں بنائے بتیاں کہ تابِ ہجراں نہ دارم اے جاں، نہ لے ہو کاہے لگائے چھتیاں مجھ مسکین کے حال سے غفلت نہ برت، باتیں بنا کر آنکھیں نہ پھیر۔ اے محبوب ، اب مجھ میں جدائی سہنے کی تاب نہیں، مجھے اپنے سینے سے کیوں نہیں لگا لیتے؟ چوں شمعِ سوزاں ، چوں ذرہ حیراں، ہمیشہ گریہ بہ عشق آں میں نہ نیند نیناں نہ انگ چیناں، نہ آپ آویں نہ بھیجی پتیاں عشق میں جلتی ہوئی شمع اور حیران و پریشان ذرے کی طرح میں ہمیشہ آہ و زاری کرتا ہوں۔آنکھوں میں نیند نہیں، جسم کو چین نہیں۔  وہ  خود آتا ہے، اور نہ  خط لکھتا ہے۔ شبانِ ہجراں دراز چوں زلف چہ روزِ وصلت چہ عمر کوتاہ سکھی ! پیا کو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں جدائی کی راتیں محبوب کی زلف جیسی لمبی ہیں، اور وصل کے دن عمر کے جیسے مختصر۔ اے سہیلی، اگر میں اپنے محبوب کو نہ دیکھوں، تو پھر یہ اندھیری راتیں کیسے کاٹوں؟ یکایک از دل دو چشمِ جادو بصد فریبم ببٗرد تسکیں کسے پڑی ہے جو جا سناوے ہمارے پی کو ہماری بتیاں؟ آن کی آن میں دو جادوگر آنکھیں سو دھوکے دے کر میرے دل کا سکون برباد کر گئیں۔ اب کسے اتنی فکر ہے کہ وہ میرے...