Skip to main content

Posts

Showing posts from 2021

شعر

اس سے کہنا کہ برا خواب تھا اب یاد نہیں  میرے بارے میں جو پوچھے کبھی دنیا تجھ سے۔ ضیاء ضمیر

چائے

‏مٹھاس تھی لمس میں کوئی چاہ میٹھی تھی۔نگاہ میٹھی تھی تیرے بعد بھی پی ہے کئی دفعہ۔ چائے ہر دفعہ پھیکی تھی 

اقوال دانش

‏اگر کوئی آپکو اہمیت دینا چھوڑ دے تو آپ شکایت کرنا چھوڑ دیں اور خاموشی اختیار کر لیں۔ ہر وقت دستیاب رہنا، پیچھے پڑے رہنا اور ہر وقت کی شکایات آپکی اہمیت میں کمی کا باعث بنتی ہیں۔  یاد رکھیں بھیک میں خیرات ملتی ہے، مقام، مرتبہ، عزت، چاہت اور محبت نہیں۔

شیخ ایاز

تون جو مون کي ڪونہ مڃندين، ‏مونکي ڪا پرواهه نہ آهي،  ‏آء سڀاڻي لاءِ لکان ٿو، ‏جيڪو نيٺ تہ اچڻو آهي،  ‏مونتي ميڙو مچڻو آھي. ‏شيخ‬⁩ ⁦‪اياز‬

قطعہ

تیرے غموں سے ایک بڑا فائدہ ہوا ہم نے سمیٹ لی دل مضطر میں کائنات اس راہِ شوق میں میرے نا تجربہ شناس غیروں سے ڈر نہ ڈر مگر اپنوں سے احتیاط. مصطفیٰ زیدی

قطعہ

وہ سامنے تھی اور میں سوچتا رہا جو ذہن میں سوال تھے وہ کہاں گئے؟ مجھے تو خیر عشق کھا گیا جو تیرے سرخ گال تھے وہ کہاں گئے؟

جب کانچ اٹھانے پڑ جائیں

جب کانچ اٹھانے پڑ جائیں، تم ہاتھ ہمارے لے جانا، جب سمجھو کہ کوئی ساتھ نہیں، تم ساتھ ہمارا لے جانا، جب دیکھو کے تم تنہا ہو، اور راستے ہیں دشوار بہت، تب ہم کو اپنا کہہ دینا، بے باک سہارا لے جانا، جو بازی بھی تم جیتو گے، جو منزل بھی تم پاؤ گے، ہم پاس تمہارے ہوں نہ ہوں، احساس ہمارا لے جانا، اگر یاد ہماری آجائے، تم پاس ہمارے آجانا، بس اک مسکان ہمیں دینا، پھر جان بھی چاہے لے جانا...

جدائی

پھر یوں ہوا کہ بات جدائی تک آگئی  خود کو ترے مزاج میں ڈھالا نہیں گیا تو نے کہا تو تیری تمنا بھی چھوڑ دی  تیری کسی بھی بات کو ٹالا نہیں گیا

شعر

‏"آ تجھـــے ہاتھ لگا کــر کبھی محســوس کــروں "تو میـــــرے خوابوں کی تعبیـــــر سے ملتا ہے بہت

زہے نصیب

نسیمِ جانفزا کے حسین جھونکے  اے تخت جمشید کی لاجونتی  میری نگارِ زیست کے نہاں خانے صدیوں سے تیرے قدموں کی تھاپ کے منتظر ہیں اے نگارِِ ارمنی آؤ شبِ زفاف کی ساعتیں تیرے لمسِ آشنائی کی بالیدگی سے تقویت پانے کو جانے کب سے ترس رہی ہیں آؤ اُنس و محبت کی چار دیواری میں مقید ہو کر اپنی روحوں کے اخطلاط سے انسطاحِ حُب انسانی کو فروغ دیں اے شب سحر کی کرن اپنی پلکوں کو جُنبش دے کر اجالوں کو  اس دھرتی کی تزئین جمال کا موقع دو  یہ روشنیاں فقط تیری آنکھوں سے مُستعار لی جاتی ھیں اے نگار آلود ماہ رُخ تمہارا میرے ہمقدم ہونا بادِ برشگال کے  جھونکوں کی طرح حسین اور پرمسرت ھے میں ہر اس جگہ کو جمالستان کا درجہ دینے کا حامی ہوں جہاں بھی تیرے قدموں نے خاک پوشی کی ھے جہاں تیری ہنسیوں کے جھرنے پُھوٹے ہیں جہاں تیری زلفوں نے ماحول مسحور کن بنایا ھے جہاں تیری گویائی کے موتی بکھرے ہیں بشاشت کی ساری وجوہات تیرے جوہر قصویٰ  لبوں کے مرہون منت ھے اے حُسن برشتہ کے گُہر بار خیالوں کے ارض و سماوات پر  تمہاری سوندھی خوشبو وقوع پزیر ہو چکی ھے تجھ پر نظر پڑتے ہی میں شہود حق کی  معرفت کا...

قطعہ

‏ہم نے مانا کہ، ______چلو مرکزی مجرم ہم ہیں !! کچھ دنوں تم نے بھی تو ہم سے محبت کی تھی نفع نقصان کی باتیں ______نہیں جچتیں ہم کو ہم نے کب یار _____ تیرے ساتھ تجارت کی تھی

سرائیکی

لگا ونج قاصد!میرے یار نوں آکھیں،تیرا بیلی سخت بیماراے ھن نازک گھڑیاں،موت دیاں،نالے ساہواں دی تنگ رفتار اے!!!!! جے کر سکناں،تاں اپڑن کر،سِدھی نیت چا کر سرکار اے!!!!!!!!! ایڈی اوکھی یار شفاء کوئ نئیں،تیرے ھِک دیدار دی مار اے،

دسمبر

دسمبر کى پہلى رات ہے  شال تو اُس نے اوڑھى ہوگى  آدھى پیالى پى لى ہوگى  آدھى عادتاً چھوڑى ہوگى  میرى یاد! ارے کہاں۔؟ اُسے اتنى فرصت تھوڑى ہوگى

نظم

وہ کہتی ہے سنوجاناں! مجھے محسوس ہوتا ہے نئے اس سال میں اپنے ستارے مل ہی جائیں گے میں کہتا ہوں! محبت کی طبیعت خوش گمانی ہے یہ پت جھڑ میں بھی پیڑوں کے ہرے پتے بناتی ہے وہ کہتی ہے بہت بوجھل ، بہت گہری اُداسی ہے نہ جانےجنوری کیوں درد میں لپٹا ہی ملتا ہے میں کہتا ہوں کہ جس دل میں محبت ڈال دے ڈیرے وہاں پر بس اُداسی، بے کلی اور درد اُگتا ہے وہ کہتی ہے! تمہیں تو یہ محبت شاد رکھتی تھی تو پھر آنکھوں میں، لہجے میں نمی کیوں آج لگتی ہے میں کہتا ہوں! ارے پگلی تمہیں تو علم ہی ہو گا بہت زیادہ خوشی میں بھی تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں

محبت تم سے نفرت ہے

چلو ہم پاس رکھ لیں گے  تیری باتیں تیری یادیں    مُحبّت تیرے صَدقے میں ملتی ہیں یہی سوغاتیں  ہنسیں گے خود سے مل کر ہم  گلے خود کو لگائیں گے  تجھے ہم یاد کرلیں گے  جب تجھے بھول جائیں گے     چلو منزل سے پہلے ہم  یہ رستہ موڑ جاتے ہیں  کہ جن کو دل میں رکھتے ہیں  وہی دل توڑ جاتے ہیں

چھالے کہاپڑے

اچھا تو پھر بتائیے کیسا رہا سفر ؟؟؟ ٹوٹی کہاں پہ جوتیاں ؟ چھالے کہاں پڑے ؟ کس موڑ پہ جناب کے ہمت نے دم دیا؟؟؟ صاحب کو اپنی جان کے لالے کہا پڑے ؟؟؟

تمہیں کیا لکھوں

ﺗﻤﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﻟﮑﮭﻮﮞ ﺩﻭﺳﺖ ﻟﮑﮭﻮﮞ ﮨﻤﺪﻡ ﻟﮑﮭﻮﮞ ﻏﻤﮕﺴﺎﺭ ﻟﮑﮭﻮﮞ ﯾﺎ , ﭘﯿﺎﺭ ﻟﮑﮭﻮﮞ ﺩﻝ ﮐﮩﺘﺎ ﮨﮯ ... ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﻟﻔﻈﻮﮞ ﮐﻮ ﯾﮑﺠﺎ ﮐﺮﮐﮯ ﺍﮎ ﭘﯿﺎﺭﯼ ﺳﯽ ﺑﺎﺕ ﻟﮑﮭﻮﮞ  ﺗﻢ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﮐﺎﺋﻨﺎﺕ ﻟﮑﮭﻮﮞ.....!! 

اسے کہنا محبت ہے

ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﻟﮑﮭﻮﮞ ؟ ﮐﺒﮭﯽ ﺍﯾﺴﺎ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺑﮩﺖ ﮨﯽ ﺭﻭﭨﮫ ﮐﺮ،ﻧﺎﺭﺍﺽ ﮨﻮ ﮐﺮ ﻧﺎﭘﺴﻨﺪﯾﺪﮦ ﺧﯿﺎﻟﻮﮞ ،ﻧﻔﺮﺗﻮﮞ ﮐﯽ ﺍﻭﭦ ﺳﮯ ﯾﺎ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﺣﯿﻠﻮﮞ ﺑﮩﺎﻧﻮﮞ ﺳﮯ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺟﮭﺎﻧﮑﺘﮯ ﺭﮨﻨﺎ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺳﻮﭼﺘﮯ ﺭﮨﻨﺎ ﻭﮦ ﻣﺎﻧﮯ ﯾﺎ ﻧﮧ ﻣﺎﻧﮯ ﺑﺲ ﺍُﺳﮯ ﻟﮑﮭﻨﺎ ﺍُﺳﮯ ﮐﮩﻨﺎ ﻣﺤﺒﺖ ﮨﮯ

کتنی محبت ہے

میں جب بھی اس سے کہتا ہوں ! مجھے تم سے محبت ہے... ! وہ مجھ سے پوچھتی ہے یہ بتاؤ نا.....!    کہ کتنی ہے؟ میں بازو کھول کر کہتا ہوں ! زمیں سے آسماں تک ہے فلک کی کہکشاں تک ہے میرے دل سے تیرے دل تک مکاں سے لا مکاں تک ہے وہ کہتی ھے، کہ بس اتنی! میں کہتا ہوں....! یہ بہتی ہے لہو کی تیز حدت میں میرے جذبوں کی شدت میں تیرے امکاں کی حسرت کی میرے وجداں کی جدت میں وہ کہتی ہے ....! نہیں کافی ابھی تک یہ ! میں کہتا ہوں...! ہوا کی سرسراہٹ ہے تیرے قدموں کی آہٹ ہے کسی شب کے کسی پل میں مجسم کھنکھناہٹ ہے وہ کہتی ہے یہ کیسے فیل (محسوس) ہوتی ہے؟ میں کہتا ہوں ! چمکتی دھوپ کی مانند بلوریں سوت کی مانند صبح کی شبنمی رت میں لہکتی کوک کی مانند وہ کہتی ہے ....! مجھے بہکاوے دیتے ہو؟ مجھے سچ سچ بتاؤ نا مجھے تم چاہتے بھی ہو یا بس بہلاوے دیتے ہو؟ میں کہتا ہوں ! مجھے تم سے محبت ہے کہ جیسے پنچھی پر کھولے ہوا کے دوش پر جھولے کہ جیسے برف پگھلے اور جیسے موتیا پھولے ! وہ کہتی ھے....! مجھے الو بناتے ہو! مجھے  کیوں اتنا چاہتے ہو؟ میں اس سے پوچھتا ہوں اب تمھیں مجھ سے محبت ہے؟ بتاؤ نا کہ، کتنی ہے وہ بازو کھول کے مج...

نظم

تمہارا  نرم و نازک ہاتھ ہو  گر میرے ہاتھوں میں  تو میں سمجھوں کہ جیسے دو جہاں ہوں میری مُٹھی میں تمہارا قُرب ہو  تو مشکلیں کافور ہو جائیں یہ اندھے اور کالے راستے پُر نُور ہو جائیں تمہارے گیسوؤں کی چھاؤں مل جائے  تو سورج سے الجھنا بات ہی کیا یے اُٹھا لو اپنا سایا تو میری اوقات ہی کیا ہے مجھے معلوم ہے اتنا  کہ دیامِ زندگی پوشیدہ ہے ان چار قدموں میں بُہت سی راحتیں مضمرِ ہیں اِن دشوار رستوں میں - میرے بارے ناں کچھ سوچو تم اپنی بات بتلاؤ کہو تو چلتے رہتے  کہو تو لوٹ جاتے ھیں

پنجابی گیت

میرے جگر دیے رانیے نی  سوہنا چندن دا چرخہ بناناں لے کے راتاں توں سیاہ کالے رنگ میں تیرے نیناں وچ کجلا میں پاناں مہارانی بنائوں رانئیے نی  تیری امڑی نوں چھڈ کے توں آناں لے کے پریاں دے دیسوں جامنوں میں تیرا جامنی دوپٹہ رنگواناں  تیرے والاں دے چیرے نوں چمناں  تینوں دل دے پلنگ تے میں بٹھاناں

وہ اتنے دلکش ہیں

‏نظر ملائیں تو ہم جیسے سات پشتوں تک نظر کا قرض چکائیں وہ اتنے دلکش ہیں وه چاند عید کا اترے جو دل کے آنگن میں ہم روز عید منائیں وه اتنے دلکش ہیں

جن کو دل میں رکھتے ہیں

مُحبّت کی کہانی میں کہاں یہ موڑ آتے ہیں  کہ جن کو دل میں رکھتے ہیں  وہی دل توڑ جاتے ہیں  تمہارا نام لے لے کر تڑپنا کیا سلگنا کیا  مُحبّت تم جو ہو جاؤ تو ملنا کیا بچھڑنا کیا  یہ کیا کھیل تم بناتی ہو  بنا کر تم مٹاتی ہو جگر کا خون پیتی ہو دلوں کا ماس کھاتی ہو یہی ہیں چونچلے تیرے  جو محفل چھوڑ جاتے ہیں  کہ جن کو دل میں رکھتے ہیں  وہی دل توڑ جاتے ہیں چلو ہم پاس رکھ لیں گے  تیری باتیں تیری یادیں    مُحبّت تیرے صَدقے میں یہی ملتی ہیں سوغاتیں  ہنسیں گے دل سے مل کر ہم  گلے دل کو لگایئں گے  تجھے ہم یاد کرلیں گے  تجھے ہم بھول جایئں گے     چلو منزل سے پہلے ہم  یہ رستہ موڑ جاتے ہیں  کہ جن کو دل میں رکھتے ہیں  وہی دل توڑ جاتے ہیں

نظم

‏تم ان لوگوں میں شامل ہو جو سا تھ ر ہیں تو دنیا کی ہر چیز ا ضا فی لگتی ہے جو با ت گو ا ر ا مشکل ہو و ہ قا بلِ معافی لگتی ہے دم بھرکی قربت بھی جن کی صد یو ں کی تلافی لگتی ہے تم ان لوگوں میں شامل ہو

جی نوں جی ہوندی اے

جھلیا ! جی نوں جی ہوندی اے ہور محبت کیہ ہوندی اے تیرا مُکھڑا ویکھ کے سوچاں ایسی صورت وی ہوندی اے؟ عاشق نہ تے موٗتوں ڈردے نہ بُلھاں تے سی ہوندی اے ہر اک دل دی پریم کہانی یارو سچی ہی ہوندی اے پہلے توڑ دی بوتل ورگی پوری کِتھے پی ہوندی اے پیو دا لک جو دوہرا کردی اوہ ماڑے دی دھی ہوندی اے یارصفی ہُن میَں کیہ دساں آخر الفت کیہ ہوندی اے

قطعہ

‏مجھ سے میری عمر کا خسارہ پوچھتے ہیں یعنی لوگ مجھ سے تمہارا پوچھتے ہیں میں بتاتا ہوں اُس سے تعلق نہیں رہا انھیں یقین نہیں آتا اور دوبارہ پوچھتے ہیں

نومبر اداس لگتا ہے

وہ درجن بھر مہینوں سے سدا ممتاز لگتا ھے  ” نومبر “ کس لئے آخر  ھمیشہ خاص لگتا ھے  بہت سہمی ھوئی صبحیں  اداسی سے بھری شامیں  دوپہریں روئی روئی سی وہ راتیں کھوئی کھوئی سی  گرم دبیز ھواؤں کا وہ کم روشن اجالوں کا  کبھی گذرے حوالوں کا  کبھی مشکل سوالوں کا بچھڑ جانے کی مایوسی  ملن کی آس لگتا ھے  ” نومبر “  اس لیے شاید ھمیشہ خاص لگتا ھے ......!!!

کیا تل ہے

‏اُس کے تِل پے یوں بہکے بہکے سے تصورات تھے میرے.  کیا یہ تِل ہے ؟ ہاں تِل ہے ، واہ تِل ہے ،کیا تِل ہے ،قاتِل ہے.

ناصر کیا کہتا پھرتا ہے

ناصرؔ کیا کہتا پھرتا ہے کچھ نہ سنو تو بہتر ہے دیوانہ ہے دیوانے کے منہ نہ لگو تو بہتر ہے کل جو تھا وہ آج نہیں جو آج ہے کل مٹ جائے گا روکھی سوکھی جو مل جائے شکر کرو تو بہتر ہے کل یہ تاب و تواں نہ رہے گی ٹھنڈا ہو جائے گا لہو نام خدا ہو جوان ابھی کچھ کر گزرو تو بہتر ہے کیا جانے کیا رت بدلے حالات کا کوئی ٹھیک نہیں اب کے سفر میں تم بھی ہمارے ساتھ چلو تو بہتر ہے کپڑے بدل کر بال بنا کر کہاں چلے ہو کس کے لیے رات بہت کالی ہے ناصرؔ گھر میں رہو تو بہتر ہے ناصرؔ کاظمی

محبت روٹھ جائے تو

وفا جب مصلحت کی شال اوڑھے سرد رت کا روپ دھارے دل کے آنگن میں اترتی ہے تو پلکوں پہ ستاروں کی دھنک مسکانے لگتی ہے کبھی خوابوں کے ان ہیولوں سے بھی ان دیکھی سی، ان جانی سی خوشبو آنے لگتی ہے کسی کے سنگ بیتے ان گنت لمحوں کی زنجیریں اچانک ذہن میں جب گنگناتی ہیں نفس کے تار میں سناٹا ایک دم چیخ اٹھتا ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے ہوائیں آکے سرگوشی سی کرتی ہیں محبت کا تمہیں ادراک اب تو ہوگیا ہوگا یہ جو بھی زخم دیتی ہے، کبھی سپنے نہیں دیتی محبت روٹھ جائے تو جینے نہیں دیتی

مشغلہ ‏

مشغلہ اپنی چاند راتوں کا دیکھنا خواب اور ڈر جانا آج بھی زندگی میں شامل ہے تیرے کُوچے سے ہو کے گھر جانا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غلام محمد قاصرؔ

قطعہ

‏سٔنا ہے أس کو سٔخن کے اصول آتے ہیں کرے کلام تو باتوں سے پھول آتے ہیں ~• سٔنا ہے أس کے پڑھانے میں ہے مٹھاس ایسی کہ بٔخار بھی ہو تو بچے سکول آتے ہیں

غزل

مجھے اپنے ضبط پہ ناز تھا  سرِ بزم رات یہ کیا ہوا میری آنکھ کیسے چھلگ گئی مجھے رنج ہے یہ برا ہوا جو نظر بچا کے گزر گئے میری سامنے سے ابھی ابھی یہ میرے ہی شہر کے لوگ تھے میرے گھر سے گھر تھا ملا ہوا مجھے ہمسفر بھی ملا کوئی  تو شکستہ حال میری طرح کئی منزلوں کا تھکا ہوا  کہیں راستوں میں لُٹا ہوا مُجھے جو بھی دُشمنِ جاں ملا  وہی پُختہ کارِ جفا ملا نہ کسی کی ضرب غلط پڑی نہ کسی کا تیر خطا ہوا میری زندگی کے چراغ کا  یہ مزاج کوئی نیا نہیں ابھی روشنی، ابھی تیرگی نہ جلا ہوا نہ بجھا ہوا مجھے ایک گلی میں پڑا ہوا  کسی بدنصیب کا خط ملا کہیں خونِ دل سے لکھا ہوا  کہیں آنسوؤں سے مٹا ہوا ہمیں اپنے گھر سے چلے ہوئے  سرِ راہ عمر گزر گئی کوئی جستجو کا صلہ ملا  نہ سفر کا حق ہی ادا ہوا اقبال عظیم

پریشانیاں ‏

‏پریشانیاں صرف مکافات عمل کےتحت ہی نہیں آتیں، کچھ بطورآزمائش، کچھ بطور تنبیہ، کچھ بلندئ درجات،کچھ گناہوں کے کفاره اور کچھ آخرت کی تیاری کےلیےبطور یاد دہانی کےبھی آتی ہیں. اللّٰه کریم ہمیں اپنی رضا میں راضی رہنےاور پریشانیوں میں ثابت قدمی اختیار کرنےکی ہمت،طاقت اورتوفیق بخشے.

Wadero

رئيس جو ڪتو ريشم پائي  غريب جو ٻار اگهاڙو آھي  ائين لکيل اسلام ۾ ناهي  مسڪين ڪمائي وڏيرو کائي

نظم

صِرف دو چار برس قبل یُونہیں برسرِ راہ مِل گیا ہوتا اگر کوئی اشارا ہم کو کِسی خاموش تکلّم کا سہارا ہم کو یہی دُزدیدہ تبسّم ، یہی چہرے کی پُکار یہی وعدہ ، یہی ایما ، یہی مُبہم اِقرار ہم اِسے عرش کی سرحَد سے مِلانے چلتے پُھول کہتے کبھی سِنگیت بنانے چلتے خانقاہوں کی طرف دِیپ جلانے چلتے صِرف دو چار برس قبل ! مگر اب یہ ہے کہ تِری نرم نِگاہی کا اِشارا پا کر کبھی بِستر کبھی کمرے کا خیال آتا ہے زِندگی جِسم کی خواہش کے سوا کُچھ بھی نہیں خُون میں خُون کی گردش کے سوا کچُھ بھی نہیں مصطفیٰ زیدی

رہنا ‏تھا ‏اس ‏کے ‏ساتھ ‏بہت ‏دیر ‏تک ‏مگر

تھی جس کی جستجو وہ حقیقت نہیں ملی ان بستیوں میں ہم کو رفاقت نہیں ملی اب تک ہیں اس گماں میں کہ ہم بھی ہیں دہر میں اس وہم سے نجات کی صورت نہیں ملی رہنا تھا اس کے ساتھ بہت دیر تک مگر ان روز وشب میں مجھ کو یہ فرصت نہیں ملی کہنا تھا جس کو اس سے کسی وقت میں مجھے اس بات کے کلام کی مہلت نہیں ملی کچھ دن کے بعد اس سے جدا ہو گئے منیر اس بے وفا سے اپنی طبیعت نہیں ملی

اک ‏سجن ‏ہوندا ‏سی

‏اِک سجّن ہوندا سی زہراں وِچ پتاسّے ورگا سُرمے سکّ دنداسّے ورگا دُکھاں وِچ دلاسے ورگا سجّرے چنّ دے ہاسّے ورگا اِک سجّن ہوندا سی الھڑّ شوخ ہواواں ورگّا دُھپاں دے وِچ چھاواں ورگا اوکھے ویلّے بانہواں ورگا اٹھے پہر دعاواں ورگا ارشاد سندھو

بہت ‏دنوں ‏بعد ‏

بہت دنوں بعد بہت دنوں بعد تیرے خط کے اداس لفظوں نے تیری چاہت کے ذائقوں کی تمام خوشبو مری رگوں میں انڈیل دی ہے بہت دنوں بعد تیری باتیں تری ملاقات کی دھنک سے دہکتی راتیں اجاڑ آنکھوں کے پیاس پاتال کی تہوں میں وصال‌ وعدوں کی چند چنگاریوں کو سانسوں کی آنچ دے کر شریر شعلوں کی سرکشی کے تمام تیور سکھا گئی ہیں ترے مہکتے مہین لفظوں کی آبشاریں بہت دنوں بعد پھر سے مجھ کو رلا گئی ہیں بہت دنوں بعد میں نے سوچا تو یاد آیا کہ میرے اندر کی راکھ کے ڈھیر پر ابھی تک ترے زمانے لکھے ہوئے ہیں سبھی فسانے لکھے ہوئے ہیں بہت دنوں بعد میں نے سوچا تو یاد آیا کہ تیری یادوں کی کرچیاں مجھ سے کھو گئی ہیں ترے بدن کی تمام خوشبو بکھر گئی ہے ترے زمانے کی چاہتیں سب نشانیاں سب شرارتیں سب حکایتیں سب شکایتیں جو کبھی ہنر میں خیال تھیں خواب ہو گئی ہیں بہت دنوں بعد میں نے سوچا تو یاد آیا کہ میں بھی کتنا بدل گیا ہوں بچھڑ کے تجھ سے کئی لکیروں میں ڈھل گیا ہوں میں اپنے سگریٹ کے بے ارادہ دھوئیں کی صورت ہوا میں تحلیل ہو گیا ہوں نہ ڈھونڈھ میری وفا کے نقش قدم کے ریزے کہ میں تو تیری تلاش کے بے کنار صحرا میں وہم کے بے اماں بگولوں کے وار سہ...

نظم ‏

یاد رات اوڑھے ہوئے آئی ہے فقیروں کا لباس چاند کشکولِ گدائی کی طرح نادم ہے دل میں دہکے ہوئے ناسور لئے بیٹھا ہوں یہی معصوم تصور جو ترا مجرم ہے کون یہ وقت کے گھونگٹ سے بلاتا ہے مجھے کس کے مخمور اشارے ہیں گھٹاؤں کے قریب کون آیا ہے چڑھانے کو تمنّاؤں کے پھول ان سلگتے ہوئے لمحوں کی چتاؤں کے قریب وہ تو طوفان تھی، سیلاب نے پالا تھا اسے اس کی مدہوش اُمنگوں کا فسوں کیا کہیے تھر تھراتے ہوئے سیماب کی تفسیر بھی کیا رقص کرتے ہوئے شعلے کا جنوں کیا کہیے رقص اب ختم ہوا موت کی وادی میں مگر کسی پائل کی صدا روح میں پایندہ ہے چھپ گیا اپنے نہاں خانے میں سورج لیکن دل میں سورج کی اک آوارہ کرن زندہ ہے کون جانے کہ یہ آوارہ کرن بھی چھپ جائے کون جانے کہ اِدھر دھند کا بادل نہ چھٹے کس کو معلوم کہ پائل کی صدا بھی کھو جائے کس کو معلوم کہ یہ رات بھی کاٹے نہ کٹے زندگی نیند میں ڈوبے ہوئے مندر کی طرح عہدِ رفتہ کے ہر اک بت کو لئے سوتی ہے گھنٹیاں اب بھی مگر بجتی ہیں سینے کے قریب اب بھی پچھلے کو، کئی بار سحر ہوتی ہے مصطفیٰ زیدی