Skip to main content

Posts

Showing posts from 2017

مزاحیہ غزل

سوہنی گھاٹ بدل سکتی تھی اور کہانی چل سکتی تھی رانجھا غُنڈے لے آتا تو ہِیرکی شادی ٹَل سکتی تھی سَسّی کے بھی اُونٹ جو ہوتے تھَل میں کَیسے جل سکتی تھی مرزے نے کب سوچا تھا کہ صاحباں راز اُگَل سکتی تھی لیلی' کالی پڑھ لِکھ جاتی فیئراینڈ لَولی مَل سکتی تھی جو پتھّرفرہاد نے توڑے جی ٹی روڈ نکل سکتی تھی انٹرنیٹ پہلے جو ہوتا ہِجر کی رات بھی ڈھَل سکتی تھی

موتیا چمبیلی

موتیا، چمیلی، بیلا، کیتکی، دھریک پھل تارا میرا، سرھوں تے فلائی دے کیسو، کچنار، نی شرینھ، تے املتاس تیرے لہئی کھیتاں وچ اگائی دے کیتکی دا پھل تیرے کیساں وچ لاواں ویکھیں ڈگے نہ خیال ذرہ رکھ نی کاشنی جیہے رنگے نی دھریک والے پھل تیری چنی تے لاواں سوا لکھ نی چری دیاں _سٹیاں دا بنوں گا پراندا پھل سنھ والے گوٹیاں نوں لائی دے السی دے پھلاں دے بنا لواں گے گجرے نی ھار، ٹکا، جھانجراں تے بندے نی کنکاں دے _سٹیاں دے بنوگے کلپ میں اڈیک داں سنہری کدوں ھوندے نی میڈھیاں گندا کے، چنی گل وچ پا کے نی اے جان جان لوکاں نوں وکھائی دے ککراں دے پھلاں دا، نمانیاں دا مان رکھیں اک، دو مندیاں بنا لویں  مٹھے مٹھے پھل نے سفیدیاں توں _کری جاندے چک کے ہونٹاں دے نال لا لویں ٹانہی اتے لگیاں دا ملھ پوندے لکھاں نی زمین تے ڈگھے دے ملھ پائی دے مروے دا بوٹا اک لایا اوھدے اوتے سوھنے ہتھاں نال پانی چھڑکا جا نی لہنگا بنوایا لاج ونتڑی دا دیکھیں ھیگا میچ ذرا پا کے تاں وکھا جا نی کاھی دیاں دمبیاں دی جھالر بنا کے نی ایہہ چیٹ دیاں تپاں وچ پائی دے بوٹا گلموھر د...

اب کے سال پونم میں

اب کے سال پونم میں جب توآئے گی ملنے، ہم نے سوچ رکھا ہے رات یوں گزاریں گے دھڑکنیں بچھادیں گےشوخ تیرے قدموں پہ، ہم نگاہوں سے تیر ی آرتی اتاریں گے تو کہ آج قاتل ہے، پھر بھی راحتِ دل ہے، زہر کی ندی ہے تو، پھر بھی قیمتی ہے تو پست حوصلے والے تیرا ساتھ کیا دیں گے، زندگی ادھر آجا ہم تجھے گزاریں گے آہنی کلیجے کو زخم کی ضرورت ہے، انگلیوں سے جو ٹپکے اس لہو کی حاجت ہے آپ زلف جاناں کے خم سنوارئیےصاحب، زندگی کی زلفوں کو آپ کیا سنواریں گے ہم تو وقت ہیں، پل ہیں، تیز گام گھڑیاں ہیں، بے قرار لمحے ہیں، بے تکان صدیاں ہیں کوئی ساتھ میں اپنے آئے یا نہیں آئے، جو ملے گا رستے میں، ہم اسے پکاریں گے (ناصر کاظمی)​

Budgets

اپنی آمدنی مینج کریں آج ایک موقر جریدہ میں ایک لائق عمل بجٹ پلان نظر سے گزرا خاطر میں آیا کہ آپ دوستوں کے ساتھ شیئر کروں۔ پڑھیں اور عمل کیجیے۔ بجٹ کیسے بنائیں؟ انسانی زندگی میں پیسے یعنی مال کی اہمیت ایک بنیادی ضرورت کی ہے۔ پیسوں کے بغیر نہ ہی ہم اپنے گھر کے اخراجات پورے کرسکتے ہیں اور نہ ہی ایک بہتر زندگی گزار سکتے ہیں۔ سماج میں ایک باعزت اور مستحکم زندگی گزارنے کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ آپ کے پاس ایک معقول رقم اپنے اخراجات کے لیے موجود ہو، یہ معاملہ اس وقت مزید اہم ہوجاتا ہے جب شوہر یا بیوی کی حیثیت سے ہمارے کاندھوں پر ایک خاندان کی ذمہ داری آجاتی ہے۔ کیونکہ گھر کی معاشی صورت حال ٹھیک نہ ہو تو کئی جھگڑے اور مسائل پیدا ہوجاتے ہیں۔ بعض لوگوں کے ساتھ یہ مسئلہ ہوتا ہے کہ ان کے ہاں لاکھوں روپے ماہانہ آمدنی آتی ہے لیکن پیسے آتے ہی پانی کی طرح بہہ جاتے ہیں اور انہیں معلوم بھی نہیں ہوتا کہ یہ کیسے کہاں چلے گئے؟ بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ ہر چیز نوٹ کرلیتے ہیں کہ کہاں کہاں کیا خرچ کیا ہے لیکن ان کے ساتھ بھی یہ مسئلہ بہرحال موجود ہوتا ہے کہ معقول آمدنی کے باوجود اخراجات پورے نہی...

تو کسی ریل سی گزرتی ہے

مَیں جسے اوڑھتا ' بِچھاتا ہُوں وہ غزل آپ کو سُناتا ہُوں ایک جنگل ہے تیری آنکھوں میں مَیں جہاں راہ بُھول جاتا ہُوں تُو کسی ریل سی گزرتی ہے مَیں کسی پل سا تھرتھراتا ہوں ہر طرف اعتراض ہوتا ہے مَیں اگر روشنی میں آتا ہوں مَیں تجھے بُھولنے کی کوشِش میں آج کتنے قریب پاتا ہوں کون یہ فیصلہ نِبھائے گا مَیں فرشتہ ہُوں ' سچ بتاتا ہُوں  ( دُشَینت کُمار )

جائوں جائوں ہی جو کرتے ہو

دور سے مجھ کو نہ منہ اپنا دکھاؤ جاؤ بس جی بس دیکھ لیا میں تمہیں جاؤ جاؤ اس قدر آمد و شد تم کو ضرر رکھتی ہے دوستاں ہر گھڑی اس کو میں نہ آؤ جاؤ ''جاؤں جاؤں'' ہی جو کرتے ہو تو مانع ہے کون جاؤ مت جاؤ جو جاتے ہو تو جاؤ جاؤ آپ کی آنکھوں سے میرے تئیں ڈر لگتا ہے مجھ ستم کشتہ سے آنکھیں نہ ملاؤ جاؤ تم جہاں جاتے ہو مجھ کو بھی خبر ہے صاحب اپنے جانے کو نہ بندے سے چھپاؤ جاؤ سیر گلشن کو اگر جاتے ہو ہم راہ رقیب بخشو میرے تئیں مجھ کو نہ بلاؤ جاؤ ہم سے کیا منہ کو چھپائے ہوئے جاتے ہو تم ہم نے پہچان لیا منہ نہ چھپاؤ جاؤ آپ کی میری کسی طرح نہ ہووے کی صلح فائدہ کچھ نہیں باتیں نہ بناؤ جاؤ کیا میاں مصحفیؔ یاں جی کے تئیں کھوؤ گے اس کے کوچے سے کہیں رخت اٹھاؤ جائو

شعر

اِس وقت تلاطم خیز ہیں ہم، گردش میں تمہیں بھی لے لیں گے​ اِس وقت نہ تیَر اے کشتئ دل، اِس وقت تو خُود گردَاب ہیں ہم​

درد_ دل بھی غم_ دوراں کے برابر سے اٹھا

دردِ دل بھی غمِ دَوراں کے برابر سے اُٹھا آگ صحرا میں لگی اور دُھواں گھر سے اُٹھا طابش حسن بھی تھی، آتشِ دنیا بھی مگر شعلہ جس نے مجھے پُھونکا مرے اندر سے اُٹھا کسی موسم کی فقیروں کو ضرورت نہ رہی آگ بھی، ابر بھی، طُوفان بھی ساغر سے اُٹھا بے صدف کتنے ہی دریاؤں سے کچھ بھی نہ ہوا بوجھ قطرے کا تھا ایسا کہ سمندر سے اُٹھا چاند سے شکوہ بہ لب ہوں کہ سُلایا کیوں تھا میں کہ خورشیدِ جہاں تاب کی ٹھوکر سے اُٹھا مصطفی زیدی

کسی کا مقروض میں نہیں پر میرے گریباں پہ ہاتھ سب کے

کسی کو ہم سے ہیں چند شکوے کسی کو بے حد شکائتیں ہیں ہمارے حصے میں صرف اپنی صفائیاں ہیں ،وضاحتیں ہیں قدم قدم پر بدل رہے ہیں مسافروں کی طلب کے رستے ہواؤں جیسی محبتیں ہیں ، صداؤں جیسی رفاقتیں ہیں کسی کا مقروض میں نہیں پر مرے گریباں پہ ہاتھ سب کے کوئی مری چاہتوں کا دشمن ، کسی کو درکار چاہتیں ہیں تری جدائی کے کتنے سورج افق پہ ڈوبے مگر ابھی تک خلش ھے سینے میں پہلے دن سی ، لہو میں ویسی ہی وحشتیں ہیں مری محبت کے رازداں نے یہ کہہ کے لوٹا دیا مرا خط کہ بھیگی بھیگی سی آنسوؤں میں تمام گنجلک عبارتیں ہیں میں دوسروں کی خوشی کی خاطر غبار بن کے بکھر گیا ہوں مگر کسی نے یہ حق نہ مانا کہ میری بھی کچھ ضرورتیں ہیں

ﻟﮩﺠﮯ ﻣﯿﮟ ﺷﮩﻨﺸﺎﮦ ﮐﮯ ﺣﻘﺎﺭﺕ ﮐﻤﺎﻝ ﺗﮭﯽ

ﺍﺱ ﮐﻮ ﺗﻮ ﭼﮭﻮﮌﯾﮯ ﺟﻮ ﻋﺒﺎﺭﺕ ﮐﻤﺎﻝ ﺗﮭﯽ ﻟﮩﺠﮯ ﻣﯿﮟ ﺷﮩﻨﺸﺎﮦ ﮐﮯ ﺣﻘﺎﺭﺕ ﮐﻤﺎﻝ ﺗﮭﯽ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﻮ ﺟﺐ ﺣﻼﻝ ﮐﮭﻼﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﺑﺴﺘﯽ ﮐﯽ ﻟﮍﮐﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻃﮩﺎﺭﺕ ﮐﻤﺎﻝ ﺗﮭﯽ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﯿﺮ ﭘﮭﯿﺮ ﮐﺮ ﻭﮨﯿﮟ ﻻﺗﺎ ﺗﮭﺎ ﮔﻔﺘﮕﻮ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﭨﺎﻟﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﮩﺎﺭﺕ ﮐﻤﺎﻝ ﺗﮭﯽ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﯾﻮﻧﮩﯽ ﻣﺬﺍﻕ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﻔﺖ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﯽ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻣﺰﺍﺝ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺷﺮﺍﺭﺕ ﮐﻤﺎﻝ ﺗﮭﯽ ﻣﺠﺒﻮﺭﯾﻮﮞ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﺍﻭﻻﺩ ﺑﯿﭻ ﺩﯼ ﯾﮧ ﺷﮩﺮ ﺗﮭﺎ ﻋﺠﯿﺐ، ﺗﺠﺎﺭﺕ ﮐﻤﺎﻝ ﺗﮭﯽ ﻭﮦ ﭼﺸﻢ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﯽ ﻣﻌﺠﺰۂ ﻓﻦ ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﭘﮧ ﻧﺎﺯﻧﯿﮟ ﮐﯽ ﺍﺷﺎﺭﺕ ﮐﻤﺎﻝ ﺗﮭﯽ ﻗﺎﺗﻞ ﮐﯽ ﺗﯿﻎ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺷﺮﺍﺭﮮ ﻧﮑﻞ ﭘﮍﮮ ﯾﻌﻨﯽ ﻣﺮﮮ ﻟﮩﻮ ﻣﯿﮟ ﺣﺮﺍﺭﺕ ﮐﻤﺎﻝ ﺗﮭﯽ

پنجابی قطعہ

اک چُپ ساڈی اُتوں چُپ سجنڑا دی ایہو چُپ ۔۔۔۔ چُپ چاپ مُکا گئی!!!۔۔۔ اوہ فخر توں چُپ اسی ادب توں چُپ چُپ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فرق ہزاراں پا گئی۔۔۔

نظم

زندگی نام ہے کچھ لمحوں کا اور ان میں وہ ایک لمحہ جس میں تیری دو بولتی آنکھیں چائے کی پیالی سے جب اُٹھیں تو سیدھا دل میں ڈوبیں....!!

نظم

ﺍﯾﮏ ﺟﯿﺴﯽ ﺑﺎﺗﻮﮞ ﭘﺮ ﺳﺐ ﮐﮯ ﺩﻝ ﺩﮬﮍﮐﺘﮯ ﮬﯿﮟ ﺳﺐ ﺍُﺩﺍﺱ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﺳﯽ ﮐﮩﺎﻧﯽ ﮬﮯ ﺍﺷﮏ ﺁﻧﮑﮫ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮫ ﮐﺮ ﮐﮭﻞ ﮐﮯ ﻣﺴﮑﺮﺍﻧﮯ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﺟﯿﺴﯽ ﺗﺸﺮﯾﺤﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺳﯽ ﻭﺿﺎﺣﺖ ﮬﮯ ﺍﯾﮏ ﺟﯿﺴﮯ ﺷﻌﻠﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﺐ ﮐﮯ ﺧﻮﺍﺏ ﺟﻠﺘﮯ ﮬﯿﮟ ﺳﺐ ﺍُﺩﺍﺱ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﮯﻣﺮﺍﺩ ﮬﺎﺗﮭﻮﮞ ﭘﺮ ﺍﯾﮏ ﺳﯽ ﻟﮑﯿﺮﯾﮟ ﮬﯿﮟ.......!!!!

نئیں بولے تو سنتے نئیں

دیکھو کِتّا سمجھارؤں میں نئیں بولے تو سنتے نئیں ​ اپنی من مانی تم کررئیے نئیں بولے تو سنتے نئیں ​ ​ ​ کرنے کے جو کاماں ہیں وہ تو جیسے کے ویسئی ہیئں ​ نئیں کرنے کے کاماں کررئیں نئیں بولے تو سنتے نئیں ​ ​ ​ میرے گھر میں رہ کو باتاں اماں باوا کی کررئیں ​ یاں کا کھاکو واں کا گارئیں، نئیں بولے تو سنتے نئیں ​ ​ ​ دوبئی نئیں تو جِدّہ جاؤ، کیسے بھی یاں سے نکلو ​ اٹھتے بیٹھتے بھیجا کھارئیں ، نئیں بولے تو سنتے نئیں ​ ​ ​ اِتّی عمر میں باہر جاکو خاک کما کو لاؤں گا ​ ہاتھاں دھوکو پچھّے پڑگئیں، نئیں بولے تو سنتے نئیں ​ ​ ​ دن بھر کام سے تھک کو آئیوں، چمٹیاں مت لیو سونے دو ​ صبئے جلدی اُٹھ سکتا نئیں میں، نئیں بولے تو سنتے نئیں ​ ​ ​ جس صورت پو مرتا تھا میں کتّی سیدھی سادی تھی ​ اسکو میک اپ کرتے جارئیں، نئیں بولے تو سنتے نئیں ​ ​ ​ اب منہ پو میک اپ کرکے جاتی عمر کے پیچھے مت بھاگو ​ گئی سو جوانی پھر آتی نئیں، نئیں بولے تو سنتے نئیں ​ ​ ​ بالاں کالے کرتے کرتے منہ اِتّا کالاہورئیے ​ بچے دیکھ کو ڈرتے جارئیں ، نئیں بولے تو ...

قصہ

کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک چرواہا اپنی بکریاں لیے جنگل میں گھوم رہا تھا کہ وہاں سے ایک شخص کا گذر ہوا۔ اس شخص نے چرواہے سے کہا کہ اگر میں تمہیں یہ بتا دوں کہ یہ کل کتنی بکریاں ہیں تو کیا تم مجھے ایک بکری دو گے؟ چرواہا بولا منظور ہے۔ اس شخص کہا یہ کل 51 بکریاں ہیں اور جھٹ سے ایک بکری اٹھا کے کندھے پر رکھ لی۔ چرواہا بولا اگر میں تمہیں بتا دوں کہ تم کون ہو تو کیا تم مجھے یہ بکری واپس کرو گے۔ وہ شخص بولا منظور ہے۔ چرواہا فورا" بولا تم فلاسفر ہو۔ تمہیں کیسے پتہ چلا ۔ اس شخص نے حیرانی سے کہا پہلے اپنے کندھے سے کتا اتار کے نیچے رکھو پھر بتاتا ہوں ۔ چرواہے نے جواب دیا ۔

قصہ

کہتے ہیں کہ ایک کسان کھیتوں میں ہل چلا رہا تھا ۔ ایک مسافر گزرتے ہوئے حقہ کی باری لینے کے لئے رک گیا۔ دونوں حقہ پینے لگے تو مسافر کہنے لگا کہ تم نے یہ ہل کی لائین سیدھی نہیں لگائی۔ تم نے اس طرف زیادہ جگہ چھوڑ دی ہے۔کسان تنگ آکر کہنے لگا تم نے اپنی بیٹی کو زیور کم دیا تھا۔ مسافر کہنے لگا زیور کا اس ہل چلانے سے کیا تعلق ہے۔ کسان نے جواب دیا : گل ایچوں ای گل نکلدی اے۔

زہرہ فانا اور امام مہدی

زہرہ فونا اور امام مہدی قصہ امام مہدی کے پاکستان آنے کا. پاکستان کی تاریخ میں مزہب کے نام پر ایسے کئی مضحکہ واقعات پیش آچکے ہیں اور اب بھی وقتا" فوقتا" پیش آتے رہتے ہیں جن کا ان...

قطعہ

اک  تو  خواب  لئے   پھرتے   ہو   گلیوں  گلیوں اور اس پہ تکرار بھی کرتے ہو خریدار کے ساتھ  ہم کو اُس شہر میں تعمیر کا سودا ہے جہاں لوگ معمار کو چُن دیتے ہیں دیوار کے ساتھ (فرازؔ)

میرا نوکیا 1280

انتہائی رنج و  غم  کے عالم میں مطلع کیا جاتا ہے کہ میرا Nokia 1280 آج صبح قلیل علالت کے بعد اس دار_ سمارٹ فونی سے کوچ کرگیا ہے۔ مرحوم اک عرصہ سے ضعیف العمری کے باعث متعدد جسمانی و سافٹویئری بیماریوں میں مبتلا تھا مگر گذشتہ ہفتے میرے آئی فون خریدنے کے فیصلے نے مرحوم کو مادر بورڈی صدمہ پہنچایا جو کہ جان لیواثابت ہوا۔ مرحوم کو ضعیف البیٹری کا عارضہ بھی لاحق تھا جو تادم مرگ قائم رہا۔ مرحوم فرح کے ہاتھ کی آخری نشانی تھی جو اس نےبرتھ ڈے گفٹ کے طور پر دیا تھا۔ مرحوم کی صاف آواز ہی کی بدولت رابعہ جیسی دھیمے بولنے والی لڑکی کو بھی سننے میں کبھی کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔ اکیس میسج فی منٹ کی رفتار حاصل کرنا صرف مرحوم ہی کے آرام دہ کی۔پیڈ کا نتیجہ تھا جس کی وجہ سے ایک وقت میں چار بندیوں کے ساتھ چیٹ کرنا ممکن ہوا۔ مرحوم ہی مدیحہ کو چھوڑنے کا سبب بنا تھا جب اس نے پکچرنکلوانے کے لئے منہ بنایا اور میں نے جیب سےمرحوم کو نکالا تواس نے طیش میں آکر کہا یا یہ فون بدلو یا مجھے بدلو۔فرح کی آخری نشانی کیسے بدل سکتا تھا۔مجبورا مدیحہ کو بدلنا پڑا۔ مرحوم تب بھی ٹوٹنے سے بچ گیا تھا جب ہما نے میرا غصہ مر...

شعر

کبھی یوں بھی ہو سر بزم وہ مجھے یہ کہے کہ غزل سنا ! میں غزل غزل میں اسے یہ کہوں,میرا کوئی نہیں ترے سوا .!!

وقت ملا تو سوچیں گے

کیوں تو اچھا لگتا ہے، وقت ملا تو سوچیں گے تجھ میں کیا کیا دکھتا ہے، وقت ملا تو سوچیں گے سارا شہر شناسائی کا دعویدار تو ہے لیکن کون ہمارا اپنا ہے، وقت ملا تو سوچیں گے اور ہم نے اس کو لکھا تھا، کچھ ملنے کی تدبیر کرو اس نے لکھ کر بھیجا ہے، وقت ملا تو سوچیں گے موسم، خوشبو، باد صبا، چاند، شفق اور تاروں میں کون تمہارے جیسا ہے، وقت ملا تو سوچیں گے یا تو اپنے دل کی مانو یا پھر دنیا والوں کی مشورہ اس کا اچھا ہے، وقت ملا تو سوچیں گے کیوں تو اچھا لگتا ہے، وقت ملا تو سوچیں گے وقت ملا تو سوچیں گے، وقت ملا تو سوچیں گے

انبوہ

انبوہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک بستی ہے' آدمی ہیں دو ایک تو میں ہوں' اور دوسرا میں گھر سے نکلا ہوں' دیکھیے کیا ہو محترم! دیکھ کر چلا کیجیے... (جؤن ایلیاء)

پنجابی مزاح

ﭘِﻨﮉ ﺩﮮ ﺳﮑﻮﻝ ﻭﭺ ﺭﻭﻝ ﻧﻤﺒﺮ ﺗﮯ ﻧﺎﻡ ﺩﯼ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﯾﮉﯼ ﺍﮬﻤﯿﺖ ﻧﺌﯿﮟ ﺳﯽ ﮬُﻨﺪﯼ ﺳﭩﻮﮈﻧﭧ ﺍﭘﻨﮯ ﭨﺒّﺮ ﺗﻮﮞ ﭘﭽﮭﺎﻧﮯ ﺟﺎﻧﺪﮮ ﺳﻦ ﻣﺎﺷﭩﺮ ﺟﯽ ﺣﺎﺿﺮﯼ ﻭﯼ ﺭﻭﻟﻨﻤﺒﺮ ﻭﺍﺋﺰ ﻧﺌﯿﮟ ﭨَﺒّﺮ ﻭﺍﺋﺰ ﻻﻧﺪﮮ... ﻟﻤﺒﮍﺍﮞ ﺩﺍ ﺍﺳﻠﻢ...ﺣﺎﺿﺮ ﺟﻨﺎﺏ ﮔُﺠﺮﺍﮞ ﺩﺍ ﺻﺪﯾﻖ...ﺣﺎﺿﺮ ﺟﻨﺎﺏ ﺟﭩّﺎﮞ ﺩﺍ ﺍﺷﺮﻑ...ﻟﺒﯿﮏ ﺳﺮ ﻧﺎﺋﯿﺎﮞ ﺩﺍ ﻣﺨﺘﺎﺭ...ﭘﻠﯿﺰﻧﭧ ﺳﺮ ﻣﻠﮑﺎﮞ ﺩﺍ ﻣﻘﺼﻮﺩ...ﺣﺎﺿﺮ ﺟﯽ ﻣﺎﺷﭩﺮ ﺑﺸﯿﺮ ﺻﺎﺣﺐ ﺗﻌﻠﯿﻢ ﺩﮮ ﻧﺎﻝ ﻧﺎﻝ ﺗﺮﺑﯿﺖ ﺩﺍ ﻭﯼ ﺑﮍﺍ ﺧﯿﺎﻝ ﺭﮐﮭﺪﮮ ﺳﻦ... ﺍِﮎ ﺩﻥ ﺧﻮﺭﮮ ﺩِﻝ ﻭﭺ ﮐﯽ ﺁﺋﯽ ﺁﮐﮭﻦ ﻟﮕﮯ ﺳﻮﯾﺮﮮ ﮬﺮ ﻃﺎﻟﺒﻌﻠﻢ ﺍﮎ ﺍﮎ ﻧﯿﮑﯽ ﺩﺍ ﮐﻢ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺁﺋﮯ ﮔﺎ... ﺍﮔﻠﮯ ﺩِﻥ ﺳﮑﻮﻟﮯ ﮔﺌﮯ ﺗﮯ ﻻ ﻟﯿﺎ ﺳﺎﺭﯼ ﺟﻤﺎﻋﺖ ﻧﻮﮞ ﻻﺋﻦ ﻭِﭺ...ﺭﻭﺯِ ﻣﺤﺸﺮ ﺩﯼ ﺭﯾﮩﺮﺳﻞ ﺍﯼ ﻟﮓ ﺭﮬﯽ ﺳﯽ ﻋﻤﻼﮞ ﺩﮮ ﻧﺘﺎﺭﮮ ﺷﺮﻭﻉ ﮬﻮ ﮔﺌﮯ... ﻟﻤﺒﮍﺍﮞ ﺩﺍ ﺍﺳﻠﻢ ﮐﯿﮩﻨﺪﺍ ﺟﻨﺎﺏ ﻣﯿﮟ ﺳﻮﯾﺮﮮ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮬﯽ ﺟﯽ...ﺷﺎﺑﺎﺵ ﺑﮩﮧ ﺟﺎ... ﮔُﺠﺮﺍﮞ ﺩﺍ ﺻﺪﯾﻖ ﮐﯿﮩﻨﺪﺍ ﻣﺎﺷﭩﺮ ﺟﯽ ﻣﯿﮟ ﻣﺴﻮﺍﮎ ﮐﯿﺘﯽ ﺳُﻨﺖ ﭘﻮﺭﯼ ﮐﯿﺘﯽ ﺟﯽ...ﺷﺎﺑﺎﺵ... ﻧﺎﺋﯿﺎﮞ ﺩﺍ ﻣُﺨﺘﺎﺭ ﺁﮐﮭﻦ ﻟﮕﺎ ﺟﻨﺎﺏ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﮯ ﺑﮯ ﺑﯿﻤﺎﺭ ﺍﮮ ﺟﯽ ﻣﯿﮟ ﺳﻮﯾﺮﮮ ﺍﻭﮬﺪﯾﺎﮞ ﻟﺘّﺎﮞ ﮔُﮭﭧ ﮐﮯ ﺁﯾﺎﮞ ﺟﯽ...ﭼﻞ ﭨﮭﯿﮏ ﺍﮮ ﺑﮩﮧ ﺟﺎ... ﻣﻠﮑﺎﮞ ﺩﮮ ﻣﻘﺼﻮﺩ ﻧﮯ ﺳﻮﯾﺮﮮ ﺭﺍﮦ ﭼﻮﮞ ﭘﮩﺎﮌﯼ ﮐِﮑﺮ ﺩﮮ ﭼﮭﺎﭘﮯ ﮬﭩﺎ ﮐﮯ ﻧﯿﮑﯽ ﮐﯿﺘﯽ ﺳﯽ... ﺍﮔﻠﯽ ﻭﺍﺭﺭ ﺍﺭﺷﺪ ﺩﯼ ﺳﯽ... ﮬﺎﮞ ﻭﺋﯽ ﺗﻮﮞ ﮐﯽ ﮐﯿﺘﺎ؟ ﻣﺎﺷﭩﺮ ﺟﯿﮧ ﺳﻮﯾﺮﮮ ﻣﺴﯿﺖ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﮭ...

نظم

ﻧﮧ ﮨﺎﺭﺍ ﮨﮯ ﻋﺸﻖ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﺩﻧﯿﺎ ﺗﮭﮑﯽ ﮨﮯ ﺩﯾﺎ ﺟﻞ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﮨﻮﺍ ﭼﻞ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ ﺳﮑﻮﮞ ﮨﯽ ﺳﮑﻮﮞ ﮨﮯ، ﺧﻮﺷﯽ ﮨﯽ ﺧﻮﺷﯽ ﮨﮯ ﺗﺮﺍ ﻏﻢ ﺳﻼﻣﺖ، ﻣﺠﮭﮯ ﮐﯿﺎ ﮐﻤﯽ ﮨﮯ ﻭﮦ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﯽ ﮐﻤﯽ ﮨﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﺑﮭﯽ ﺗﻨﮩﺎﺋﯽ ﯾﮧ ﺩﺍﺋﻤﯽ ﮨﮯ ﮐﮭﭩﮏ ﮔﺪﮔﺪﯼ ﮐﺎ ﻣﺰﺍ ﺩﮮ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ ﺟﺴﮯ ﻋﺸﻖ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺷﺎﯾﺪ ﯾﮩﯽ ﮨﮯ ﭼﺮﺍﻏﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﺪﻟﮯ ﻣﮑﺎﮞ ﺟﻞ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﻧﯿﺎ ﮨﮯ ﺯﻣﺎﻧﮧ، ﻧﺌﯽ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﮨﮯ ﺟﻔﺎﺅﮞ ﭘﮧ ﮔﮭُﭧ ﮔﮭُﭧ ﮐﮯ ﭼُﭗ ﺭﮨﻨﮯ ﻭﺍﻟﻮ ﺧﻤﻮﺷﯽ ﺟﻔﺎﺅﮞ ﮐﯽ ﺗﺎﺋﯿﺪ ﺑﮭﯽ ﮨﮯ ﻣﺮﮮ ﺭﺍﮨﺒﺮ ! ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﮔﻤﺮﺍﮦ ﮐﺮ ﺩﮮ ﺳﻨﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﻨﺰﻝ ﻗﺮﯾﺐ ﺁ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ ﺧﻤﺎﺭِ ﺑﻼ ﻧﻮﺵ ! ﺗُﻮ ﺍﻭﺭ ﺗﻮﺑﮧ ! ﺗﺠﮭﮯ ﺯﺍﮨﺪﻭﮞ ﮐﯽ ﻧﻈﺮ ﻟﮓ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ

جی کا جانا ٹھہر گیا ہے

عشق ہمارے خیال پڑا ہے خواب گئی آرام گیا جی کا جانا ٹھہر رہا ہے صبح گیا یا شام گیا  عشق کیا سو دین گیا ایمان گیا اسلام گیا دل نے ایسا کام کیا کچھ جس سے میں ناکام گیا  کس کس اپنی کل کو رووے ہجراں میں بے کل اس کا خواب گئی ہے تاب گئی ہے چین گیا آرام گیا  آیا یاں سے جانا ہی تو جی کا چھپانا کیا حاصل آج گیا یا کل جاوے گا صبح گیا یا شام گیا  ہائے جوانی کیا کیا کہیے شور سروں میں رکھتے تھے اب کیا ہے وہ عہد گیا وہ موسم وہ ہنگام گیا  گالی جھڑکی خشم و خشونت یہ تو سردست اکثر ہیں لطف گیا احسان گیا انعام گیا اکرام گیا  لکھنا کہنا ترک ہوا تھا آپس میں تو مدت سے اب جو قرار کیا ہے دل سے خط بھی گیا پیغام گیا  نالۂ میرؔ سواد میں ہم تک دوشیں شب سے نہیں آیا شاید شہر سے اس ظالم کے عاشق وہ بدنام گیا

قطعہ

یہ جو !! اِتنا خلوص لائے ہو !! اَب میں اِس کا اچار ڈالوں کیا ؟؟ ٹھیک ہے !! عید ہے !! مگر بھائی !! اَب اُداسی کو مار ڈالوں کیا ؟؟ "عابی مکھنوی"