Skip to main content

Posts

Showing posts from 2024

محبت

وہ من پسند شخص جس کے ساتھ ڈر ڈر کر رہنا جہاں ہر وقت آپ کو یہ دھچکا لگا رہے کہ یہ رستے میں چھوڑ جائے گا بات کرتے ہوئے سو بار سوچنا کہ کہیں میری کوئی بات بری نہ لگ جائے وہ برا نہ لگ جائے کہیں روٹھ نہ جائے کہیں رابطہ ختم ہو جائے کیا ہے یار یہ جو شخص آپ کی قربت خود چاہتا ہو وہی آپ کی زندگی بڑھا سکتا ہے ورنہ آپ کسی سے بھی تعلق رکھ لیں محنت ہے یکطرفہ محنت اور ایسی محنت فقط تھکن ہے سکون نہیں۔۔۔۔

I will love you

“I am not the first person  you loved. You are not the first person I looked at with a mouthful of forevers.  We have both known loss like the sharp edges of a knife. We have both lived with lips more scar tissue than skin.  Our love came unannounced in the middle of the night. Our love came when we’d given up on asking love to come. I think that has to be part of its miracle.  This is how we heal. I will kiss you like forgiveness, You will hold me like I’m hope.  Our arms will bandage and we will press promises between us like flowers in a book.  I will write sonnets to the salt of sweat on your skin. I will write novels to the scar of your nose.  I will write a dictionary of all  the words I have used trying  to describe the way it feels to  have finally, finally found you. And I will not be afraid of your scars. I know sometimes it’s still hard to let me see you in all your cracked perfection, but please know: whether it’s the days yo...

قطعہ

میں اِک مزاج کا قائل نہیں تھا سو میں نے کسی کو تھوڑا زیادہ، کسی کو کم چھوڑا ! تری وفا سے میں اتنا ڈرا کہ پھر میں نے ! جسے بھی اپنے قریں پایا، ایک دم چھوڑا

بھیگتے جا رہیں موسم

بھیگتے جارہے ہیں کیوں موسم بے یقینی کی تیز بارش میں کیوں دریچے اداس رہتے ہیں دوریاں کیوں ہیں خواب و خواہش میں روز کہتا ہوں آج پوچھوں گا حوصلہ ساتھ ہی نہیں دیتا عکس سے ہو مکالمہ کیسے آئینہ ساتھ ہی نہیں دیتا۔۔۔

ساتھ دل کے چلے

سا تھ دل کے چلے دل کو نہیں روکا ہم نے جو نہ اپنا تھا اسے ٹوٹ کے چاہا ہم نے ایک دھوکے میں کٹی ہے عمر ہماری ساری کیا بتائیں کیسے پایا کیسے کھویا ہم نے

تعلق اور ذہنی سکون

جب کوئی انسان ہمارے ذہنی سکون کے لئے خطرہ بننے لگتا ہے تو ہمارا دماغ ہمیں سائن ضرور دیتا ہے، ۔۔ لیکن ہم اس آواز کو یہ سوچ کر اگنور کر دیتے ہیں کہ رشتوں میں محبتوں میں قربانیاں دینی پڑتی ہیں،۔۔  اور اس قربانی کا آغاز "اپنا سکون برباد کرنے سے ہوتا ہے"۔۔ ان لوگوں کیلئے کئی کلومیٹرز چلنا جو لوگ آپ کیلئے دو قدم نہ چل سکیں سراسر بیوقوفی ہے، تعلق میں جن چیزوں کا تعاقب کرنا پڑے وہ کبھی آپ کی ہوتی ہی نہیں!۔۔۔

مخلص رہیں

زندگی میں ہمیں ، حقیقی معنوں میں وہ لوگ جینا سکھاتے ہیں جو مشکل وقت میں ہم سے توقعات کی بیساکھی چھین لیتے ہیں اور پھر ہم انکے بغیر چلنا سیکھ لیتے ہیں۔!!  ہر اُس شخص کے ساتھ مخلص رہیں، جسکی ایک اچھی بات آپ کا دل بہلانے کا سبب بنی ہو  جس کے ایک مزاحیہ جملے سے آپ کا چہرہ کھلکھلا اٹھا ہو، جس کی نصیحت سے آپکے کردار میں نکھار پیدا ہوا ہو، مخلص رہیں تا کہ آپ کے ساتھ مخلص رہا جائے ہر اس چیز سے ہر اس رنگ سے محبت کریں جو آپ کی مرجھائی روح میں نئی زندگی اور نئی امید کو جگائے رکھتا ہے.!!

سرد تعلقات

کیا آپ نے دیکھا ہے جب تعلقات کے درمیان سے محبت نکل جاتی ہے تو گفتگو کیسے رسمی سی ہو جاتی ہے، پھیکے پھیکے سے بیجان لہجے اس قدر سرد ہو جاتے ہیں کہ دور دور تک ان کی حرارت ہی محسوس نہیں ہوتی، کسی بھی گرمجوشی سے خالی فقط ضرورت کی بات کی جاتی ہے، اک دوجے سے نہ دکھ درد کو بیان کیا جاتا ہے اور نہ ہی خوشی و خوشخبریاں بانٹی جاتی ہیں محبت کیا مر جاتی ہے تعلق کی روح ہی ختم ہوجاتی ہے اور قریب سے قریب تر رشتہ بھی پرائے سے پرایا ہو کر رہ جاتا ہے۔

قطعہ

یہ لمحے عشق و مستی کے سدا پابند نہیں رہتے، سدا خوشیاں نہیں رہتیں، ہمیشہ غم نہیں رہتے، ذرا دیکھو کہ دروازے پہ دستک کون دیتا ہے، محبت ہو تو کہہ دینا۔۔ یہاں اب ہم نہیں رہتے

خوب

منتظر ہیں دم رخصت کہ یہ مر جائے تو جائیں پھر یہ احسان کہ ہم چھوڑ کے جاتے بھی نہیں کیا کہا پھر تو کہو ہم نہیں سنتے تیری نہیں سنتے تو ہم ایسوں کو سناتے بھی نہیں خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں داغ دہلوی

اپنے کام سے کام رکھیں

خاموشی کو اپنائیں، لوگوں کو سنجیدگی سے نہ لیں، اپنے جذبات کو بڑھا چڑھا کر پیش نہ کریں، پرسکون رہیں۔ اگر کسی کا کوا سفید ہے تو اسے سفید ہی رہنے دیں کالا ثابت کرنے کی کوشش نہ کریں، اگر کوئی یہ تسلیم کرچکا ھے کہ ہاتھی درخت پر بیٹھا ہے تو اس کے ہاتھی کو نیچے اتارنے میں اپنا وقت، جذبات اور اپنے الفاظ ضائع نہ کریں۔

چپ رہنا بھی تمہی سے سیکھا

نقش کی طرح اُبھرنا بھی تُمہی سے سیکھا  رفتہ رفتہ نظر آنا بھی تُمہی سے سیکھا  تم سے حاصل ہوا اک گہرے سمندر کا سکوت  اور ہر موج سے لڑنا بھی تمہی سے سیکھا  اچھے شعروں کی پرکھ تم نے ہی سکھلائی مجھے  اپنے انداز سے کہنا بھی تمہی سے سیکھا  تم نے سمجھائے مری سوچ کو آداب ادب  لفظ و معنی سے الجھنا بھی تمہی سے سیکھا  رشتۂ ناز کو جانا بھی تو تم سے جانا  جامۂ فخر پہننا بھی تمہی سے سیکھا  چھوٹی سی بات پہ خوش ہونا مجھے آتا تھا  پر بڑی بات پہ چپ رہنا تمہی سے سیکھا  زہرہ نگاہ

پھر یوں ہوا

پھر یوں ہوا کہ ساتھ تیرا چھوڑنا پڑا  ثابت ہوا کہ لازم و ملزوم کچھ نہیں پھر یوں ہوا کہ باتوں میں ہم اس کی آگئے  پھر یوں ہوا کہ دھوکے ہی کھائے تمام عمر  پھر یوں ہوا کہ دکھ ہمیں محبوب ہو گئے پھر یوں ہوا کہ دل سے لگائے تمام عمر پھر یوں ہوا کہ دل کی لگی دل کو لگ گئی  وه شخص مجھے صبر کی عبادت سکھا گیا پھر یوں ہواکہ بات حدوں سے نکل گئی اور خواب رنجشوں کی حراست میں مر گئے🥀 اب کیا کسی کو چاہیں کہ ہم کو تو ان دنوں خود اپنے آپ سے بھی محبت نہیں رہی پھر یوں ہوا کہ گناہ کی طاقت نہیں رہی ہم جیسے کتنے لوگ بھی درویش ہوگئے

90/10 Principle

The 90/10 Principle Consider a situation: You're eating breakfast with your family. Your daughter accidentally knocks over a cup of coffee onto your business shirt. You curse and harshly scold your daughter for the mishap. She breaks down in tears. After scolding her, you turn to your wife and criticize her for placing the cup too close to the edge of the table. A short verbal argument follows. You storm upstairs and change your shirt. Back downstairs, you find your daughter has been too busy crying to finish breakfast and get ready for school. She misses the bus. Your wife must leave immediately for work. You rush to the car and drive your daughter to school. Because you are late, you drive 80 km an hour in a 60 km/h speed limit zone. After a 15-minute delay and paying a $60 traffic fine, you arrive at school. Your daughter runs to the building without saying goodbye. After arriving at the office 30 minutes late, you find you forgot your briefcase. Your day has started terribly, a...

سکون

سکون کا مطلب صرف یہ نہیں کہ آپ کسی سے بات کریں اور وہ آپ کی بات سنے، بلکہ اصل سکون یہ ہے کہ آپ کسی سے بات کریں اور وہ آپ کی بات سمجھے اور محسوس کرے سمجھنے والا انسان دل کو اطمینان اور روح کو سکون بخشتا ہے۔

قطعہ

‏دل نے تاوان کی صورت میں لٹایا ہے نصیب  میں نے کھویا ہے مشقت سے کمایا ہوا شخص  یاد آتا ہے تو بڑھ جاتا ہے نقصان کا رنج  زندگی بھر کا اثاثہ تھا گنوایا ہوا شخص...!

تعلقات میں اعتماد

کبھی بھی اپنے سے جڑے انسان کو جاسوس بننے پر مجبور نہ کریں۔ آپ سے جڑے انسان کو ہر بات کا علم ہونا چاہیے۔ ہمیشہ کھلے دل سے بات کریں، شفاف رہیں، ہر وقت قابل رسائی اور دستیاب رہیں۔۔ وہیں موجود رہیں جہاں آپ نے کہا ہو کہ آپ ہوں گے۔۔ اگر کوئی غیر متوقع واقعہ پیش آ جائے، جیسا کہ کبھی کبھار ہوتا ہے، تو فوراً ان کو بتائیں اور انہیں ساتھ ساتھ رکھیں۔۔ اگر آپ کچھ ایسا کرنے کا ارادہ کر رہے ہیں جس سے آپ کو لگے کہ آپ سے جڑا انسان بے سکون ہو سکتا ہے، تو وہ کام مت کریں۔ اگر آپ کی کوئی ایسی دوستی یا تعلق ہے جس کے بارے میں آپ سے جڑے انسان کو معلوم نہیں ہونا چاہیے، تو پھر آپ کو وہ دوستی یا تعلق رکھنا ہی نہیں چاہیے۔۔ اگر آپ کے موبائل فون میں کوئی ایسی چیز ہے جو آپ خود سے جڑے انسان کو نہیں دکھانا چاہتے، تو پھر وہ چیز آپ کے فون میں موجود ہی نہیں ہونی چاہیے۔۔ اگر آپ کو ایسی کالز یا پیغامات موصول ہوتے ہیں جو آپ سے جڑے انسان کو آپ سنانا یا دکھانا نہیں چاہتے، تو آپ کو وہ کالز یا پیغامات وصول نہیں کرنے چاہئیں اور ان نمبروں کو اپنے فون سے بلاک کر دینا چاہیے۔ تعلقات میں راز رکھنے کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ اپنے سے جڑ...

سمجھنے میں بہت دیر لگی

دل سے جاتے نہیں، جو لوگ چلے جاتے ہیں دل کو یہ بات سمجھنے میں بہت دیر لگی زندگی ہم تِرے کند ذہن سے شاگرد جنہیں کچھ سوالات سمجھنے میں بہت دیر لگی کون دشمن ہے کسے دوست سمجھنا ہے یہاں ہم کو حالات سمجھنے میں بہت دیر لگی ہم نے اس کھیل کو بس کھیل کی حد تک سمجھا مات کو مات سمجھنے میں بہت دیر لگی پیڑ کٹتے ہی پرندے بھی چلے جاتے ہیں کچھ روایات سمجھنے میں بہت دیر لگی وہ اچانک سے، لکیروں سے نکل کیسے گیا دیکھ کر ہاتھ، سمجھنے میں بہت دیر لگی

عشق کا مطلب

اُس نے خَط میں عِشق کا مَطلَب پُوچھ لِیا ہے!!! میں نے لِکھا ہے !!!!  جَب کَوئی چَہرہ دَھیان میں آ کَر مَن آنگَن میں پُھول کِھلا دے جَب کَوئی نام لَبُوں کَو چُھو کَر دَھڑکنُوں کَو تَرتِیب بُھلا دے جَب کَوئی جَذبہ کارِ جُنُوں سے آتِش کَو گُلزار بنا دے لَیکِن اِتنا دَھیان میں رَکھنا کَوئی صِراطِ عِشق سے گُزرے تَب کُھلتا ہے !!!!!!! عِشق سے پَہلے عشق کا مطلب.......کب کھلتا یے

شعر

کاسۂ دِید میں ، بس ایک جَھلک کا سِکّہ____!! ہم فقیروں کی قناعت سے , تُجھے دیکھتے ہیں۔۔   پروین شاکر

بہتر ہے اسے چھوڑ دو

اگر کسی انسان کو تمہارے ہر وقت میسر ہوتے ہوئے بھی کسی اور سے بات کرنے کی ضرورت اور کمی محسوس رہتی ہے تو بہتر ہے اسے چھوڑ دو۔ ‏اور دوبارہ اسے پانے کے سو مواقع بھی ملیں ‏تو وہ مواقع خوشی سے گنوا دو۔

معافی

"سالوں کے دُکھ لمحوں میں ختم نہیں ہوتے  ، بعض دفعہ معافی مانگنے والا تو معافی مانگ کر اپنی تکلیف کم کرنے کی کوشش کرتا ہے  یا پھر اپنا اگلا راستہ آسان کرتا ہے ، لیکن دُوسری طرف معاف کرنے والا کبھی کبھی ایسے مقام پر ہوتا ہے کہ وہ معافی مانگنے والے کو تو معاف کر دیتا ہے مگر اُس تکلیف کو نہیں بُھول پاتا  جو سزا ، جو ہجر کے لمحے عذاب بن کر گُزرے ہوں وہ نہیں بُھولے جاتے وہ ٹُھکرائے جانے کا احساس ، مُحبت روٹھ جانے کی تکلیف تلخ الفاظ تلخ لہجہ سب پھر بھی ذہن میں کہیں نہ کہیں نقش ہو جاتے ہیں ، پھر اتنا ظرف دِکھا کر معاف کر دینا   وللہ! صبر کرنا کوئی آسان بات تو نہیں ۔

Letting you go

This book is a collection of honest and poignant essays that explore the art of letting go. Priebe shares her wisdom and experience on how to release the people and situations that no longer serve us, and how to embrace the new possibilities that await us.  Here are some of the lessons that readers can learn from this book: 1. The Power of Choice: Priebe reminds us that we always have a choice in how we respond to the circumstances of our lives. We can choose to hold on to what hurts us, or we can choose to let go and move on. 2. The Beauty of Closure: Priebe teaches us how to find closure within ourselves, without depending on others to give it to us. She shows us how to accept the reality of what happened, learn from it, and grow from it. 3. The Art of Detachment: Priebe helps us to detach from the outcomes of our relationships, and focus on the process instead. She helps us to appreciate the moments we shared, the lessons we learned, and the love we felt, without clinging to the...

دکھ

مجھے لگتا تھا کہ میں نے اپنے غُصے کے ساتھ ایک لمبا عرصہ گُزارا ہے، اور پھر جب میری اس سے دوستی ہوئی تو اس نے بتایا کہ اسکا اصل نام “دُکھ” ہے۔۔!!

تو پھرے کو بہ کو میرے لیئے

اَے کہ میں تیرے لیے تھا اور تو میرے لیے اب ترے ہاتھوں پہ لکھا ہے لہو میرے لیے میری بکھری ٹکڑیوں میں پھوٹنے والے ہیں پر میرے قاتل جال پھیلا چار سُو میرے لیے کاش ایسا ہو کہ اب کے بے وفائی میں کروں تُو پھرے قریہ بہ قریہ کُوبہ کُو میرے لیے میں تو لا محدود ہو جائوں سمندر کی طرح تو بہے دریا بہ دریا جو بہ جو میرے لیے پھر زمیں کی سسکیاں اپنی لگیں خالدؔ مجھے پھر ہوا ہے جشنِ مرگِ آرزو میرے لیے خالد شریف

غزل

ضبط کرنا نہ کبھی ضبط میں وحشت کرنا اتنا آساں بھی نہیں تجھ سے محبت کرنا تجھ سے کہنے کی کوئی بات نہ کرنا تجھ سے کنجِ تنہائی میں بس خود کو ملامت کرنا اک بگولے کی طرح ڈھونڈتے پھرنا تجھ کو روبرو ہو تو نہ شکوہ نہ شکایت کرنا ہم گدایانِ وفا جانتے ہیں اے درِ حسن! عمر بھر کارِ ندامت پہ ندامت کرنا اے اسیرِ قفسِ سحرِ انا ! دیکھ آ کر کتنا مشکل ہے ترے شہر سے ہجرت کرنا پھر وہی خارِ مغیلاں ، وہی ویرانہ ہے ہے کفِ پائے جنوں پھر وہی زحمت کرنا جمع کرنا تہِ مژگاں تجھے قطرہ قطرہ رات بھر پھر تجھے ٹکڑوں میں روایت کرنا کام ایسا کوئی مشکل تو نہیں ہے خاور مگر اک دستِ حنا رنگ پر بیعت کرنا محمد ایوب خاور​

قطعہ

خدا کی اتنی بڑی کائنات میں میں نے بس ایک شخص کو مانگا مجھے وہی نہ ملا بہت عجیب ہے یہ قربتوں کی دوری بھی وہ میرے ساتھ رہا اور مجھے کبھی نہ ملا بشیر بدر 

قطعہ

ذرا سی بات پہ دل سے بگاڑ آیا ہوں بنا بنایا ہوا گھر اجاڑ آیا ہوں میں اس جہان کی قسمت بدلنے نکلا تھا اور اپنے ہاتھ کا لکھا ہی پھاڑ آیا ہوں جمال احسانی

قطعہ

ترے نہ آنے سے دل بھی نہیں دکھا شاید وگرنہ کیا میں سر شام سونے والا تھا ہزار طرح کے تھے رنج پچھلے موسم میں پر اتنا تھا کہ کوئی ساتھ رونے والا تھا جمال احسانی

قطعہ

جب کبھی خواب کی امید بندھا کرتی ہے نیند آنکھوں میں پریشان پھرا کرتی ہے یاد رکھنا ہی محبت میں نہیں ہے سب کچھ بھول جانا بھی بڑی بات ہوا کرتی ہے جمال احسانی

شعر

یہ غم نہیں ہے کہ ہم دونوں ایک ہو نہ سکے یہ رنج ہے کہ کوئی درمیان میں بھی نہ تھا جمال احسانی

قطعہ

اب اُس نے وقت نکالا ہے حال سننے کو بیان کرنے کو جب کوئی داستاں بھی نہیں زمین پیروں سے نکلی تو یہ ہوا معلوم ہمارے سر پہ کئی دن سے آسماں بھی نہیں جمالؔ احسانی

Conscious Conversation

 "Conscious conversations are not about being 'right' or 'wrong', but about being present, curious, and open to new possibilities. They invite us to listen deeply, speak truthfully, and explore the unknown together." 7 lessons from "The Art of Conscious Conversations: Transforming How We Talk, Listen, and Interact" by Chuck Wisner, Mike Lenz, et al.: 1. Be Present in the Conversation Be fully engaged and attentive in the conversation, letting go of distractions and multitasking. This allows for deeper connection and understanding. 2. Listen Actively and Empathetically Listen with the intention to understand, rather than respond. Practice empathy and acknowledge the other person's perspective to create a safe and supportive space. 3. Speak Truthfully and Authentically Express yourself honestly and transparently, without judgment or agenda. This builds trust and encourages open and honest communication. 4. Ask Open-Ended and Curious Questions Ask q...

کوئی اتنا پیارا کیسے ہو سکتا ہے

کوئی اتنا پیارا کیسے ہو سکتا ہے پھر سارے کا سارا کیسے ہو سکتا ہے تجھ سے جب مل کر بھی اداسی کم نہیں ہوتی تیرے بغیر گزارا کیسے ہو سکتا ہے کیسے کسی کی یاد ہمیں زندہ رکھتی ہے ایک خیال سہارا کیسے ہو سکتا ہے یار ہوا سے کیسے آگ بھڑک اٹھتی ہے لفظ کوئی انگارا کیسے ہو سکتا ہے کون زمانے بھر کی ٹھوکریں کھا کر خوش ہے درد کسی کو پیارا کیسے ہو سکتا ہے ہم بھی کیسے ایک ہی شخص کے ہو کر رہ جائیں وہ بھی صرف ہمارا کیسے ہو سکتا ہے کیسے ہو سکتا ہے جو کچھ بھی میں چاہوں بول نا میرے یارا کیسے ہو سکتا ہے (جواد شیخ)

نظم

پوچھنے والے تجھے کیسے بتائیں آخر دکھ عبارت تو نہیں ،جو تجھے لکھ کر بھیجیں یہ کہانی بھی نہیں ہے کہ سنائیں تجھ کو نہ کوئی بات ہی ایسی کہ بتائیں تجھ کو زخم ہو تو تیرے ناخن کے حوالے کر دیں آئینہ بھی تو نہیں ھے کہ دکھائیں تجھ کو تو نے پوچھا ھے مگر کیسے بتائیں تجھ کو۔۔۔؟؟ یہ کوئی راز نہیں جس کو چھپائیں تو وہ راز کبھی چہرے کبھی آنکھوں سے چھلک جاتا ھے جیسے آنچل کو سنبھالے کوئی اور تیز ھوا جب بھی چلتی ھے تو شانوں سے ڈھلک جاتا ھے اب تجھے کیسے بتائیں کہ ہمیں کیا دکھ ھے۔۔۔۔۔؟؟ جسم میں رینگتی رہتی ھے مسافت کی تھکن پھر بھی کاندھوں پہ اٹھائے ھوئے حالات کا بوجھ اپنے قدموں سے ہٹاتے ہوئے سائے اپنے جس کو بھی دیکھیئے چپ چاپ چلا جاتا ھے کبھی خود سے کبھی رستوں سے الجھتا ھے مگر جانے والا کسی آواز پہ رکتا ہی نہیں ڈھونڈنا ھے نیا پیرائے اظہار ہمیں استعاروں کی زباں کوئی سمجھتا ہی نہیں۔۔۔۔!! دل گرفتہ ہیں طلسماتِ غمِ ہستی سے سانس لینے سے فسوں قریاں جاں ٹوٹتی ھے اک تغیر پس ہر شے ھے مگر ظلم کی ڈور ابھی معلوم نہیں ھے کہ کہاں ٹوٹتی ھے تو سمجھتا ھے کہ خوشبو سے معطر ھے حیات تو نے چکھا ہی نہیں زہر کسی موسم کا۔۔۔۔۔!! تجھ ...

غزل

زمیں کو عُجلت، ہوا کو فُرصت، خلا کو لُکنت مِلی ہوئی ہے ہم احتجاجاً جی رہے ہیں یا اجازت ملی ہوئی ہے؟ ہم اپنی مرضی کے تارے چُن کر فلک پہ چہرے بنا رہے ہیں بغیر چھت کے پڑے ہوئے ہیں تو یہ سہولت مِلی ہوئی ہے بچھڑنے والوں کی بد دُعائیں ہماری عُمریں بڑھا رہی ہیں یہ زہر خالص نہیں ہے اس میں کسی کی چاہت ملی ہوئی ہے ہر ایک ناؤ بھٹک بھٹک کر ہمارے ساحل پہ آ رہی ہے ہر اک جزیرے کے باسیوں کو ایسی وحشت ملی ہوئی ہے ہماری اوقات کے مطابق ہمارے درجے بنے ہوئے ہیں کسی کو قُدرت، کسی کو مُہلت، کسی کو قسمت مِلی ہوئی ہے ہمایوں خان

قطعہ

‏یہ بھی مُمکن ہے کہ آنکھیں ہوں، تماشا ہی نہ ہو راس آنے لگے ہم کو تو یہ دُنیا ہی نہ ہو۔۔۔!! زندگی چاہیں تو خوابوں کے سِوا کُچھ نہ ملے  ڈوبنا چاہیں تو حاصل ہمیں دریا ہی نہ ہو۔۔!!

وہیں کھڑے ہیں

یقین مانو وہیں کھڑے ہیں  جہاں سے رستہ بدل گئے تم  جہاں مقدر نے مات دی تھی  جہاں سے خوشیاں بچھڑ گئ تھیں جہاں محبت نے موت دیکھی  جہاں چھڑایا تھا ہاتھ تم نے  جہاں اداسی نے ہاتھ تھاما  یہ ہجر ہم سے جہاں ملا تھا یقین مانو وہیں کھڑے ہیں  بتاؤ تم ہی کدھر کو جائیں  کسے پکاریں ، کسے بلائیں  یہ زخم اپنے کسے دکھائیں  یہاں جو ہم پے گزر رہی ہے  بتاؤ تم ہی ، کسے بتائیں  تمہارے جانے کے بعد ہم نے  یہ عہد خود سے ہی کر لیا ہے  تمہاری یادوں کے دشمنوں سے لڑائی جو ہے یہیں لڑیں گے  جیئں گے جتنا ، اسی جگہ پر  یقین رکھو ، یہیں مریں گے ....

قطعہ

‏یہ بھی مُمکن ہے کہ آنکھیں ہوں، تماشا ہی نہ ہو راس آنے لگے ہم کو تو یہ دُنیا ہی نہ ہو۔۔۔!! زندگی چاہیں تو خوابوں کے سِوا کُچھ نہ ملے  ڈوبنا چاہیں تو حاصل ہمیں دریا ہی نہ ہو۔۔!!

رات پھیلی ہے

رات پھیلی ہے تیرے، سرمئی آنچل کی طرح چاند نکلا ہے تجھے ڈھونڈنے، پاگل کی طرح خشک پتوں کی طرح، لوگ اُڑے جاتے ہیں شہر بھی اب تو نظر آتا ہے، جنگل کی طرح پھر خیالوں میں ترے قُرب کی خوشبو جاگی پھر برسنے لگی آنکھیں مری، بادل کی طرح بے وفاؤں سے وفا کرکے، گذاری ہے حیات میں برستا رہا ویرانوں میں، بادل کی طرح شاعر : کلیم عثمانی

قطعہ

جھوٹے وعدوں کی لذتیں مت پوچھ آنکھ در سے لگی ہی رہتی ہے کچھ نئی بات تو نہیں قابلؔ ہجر میں بےکلی ہی رہتی ہے قابلؔ اجمیری

کبھی کبھی

کبھی کبھی جو ترے قرب میں گزارے تھے اب ان دنوں کا تصور بھی میرے پاس نہیں گزر رہے ہیں عجب مرحلوں سے دیدہ و دل سحر کی آس تو ہے زندگی کی آس نہیں مجھے یہ ڈر ہے تری آرزو نہ مٹ جائے بہت دنوں سے طبیعت مری اداس نہیں

ہم خریدے گئے گرانی میں

اب دوبارہ فروخت مشکل ہے ہم خریدے گئے گرانی میں ہم کو رکھا گیا نشانے پر زخم بھیجے گئے نشانی میں میں کہانی میں تم پہ مرتا تھا جھوٹ ہوتا ہے سب کہانی میں جناب احسان الحق مظہر 

قطعہ

ﭨﮭﯿﮏ ﮨﮯ ، ﺑﯿﭩﮭﮯ ﺭﮨﻮ ، ﺭﺍﮦ تَکو ، ﻣﺮ ﺟﺎﺅ ﻭﻋﺪﮦِ ﯾﺎﺭ ﮨﮯ ، ﺳﭽﺎ ﺗﻮ ﻟﮕﮯ ﮔﺎ ﺗﻢ ﮐﻮ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﻘﺘﻞ ﺑﮭﯽ ﮐﮩﮯ ، ﺗﻢ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﺎﻧﻮ ﮔﮯ ﮐﻮﭼﮧِ ﯾﺎﺭ ﮨﮯ ، ﺍﭼﮭﺎ ﺗﻮ ﻟﮕﮯ ﮔﺎ ﺗﻢ ﮐﻮ مجروح سلطانپوری

کیا بات کریں گے

میں سوچتا ہوں ہم دن میں ملے  اور ملاقات ہم ساری رات کریں گے  پھر سوچتا ہوں ہم ملے بھی اگر  ہم اتنی لمبی کونسی٬ کیا بات کریں گے 

وقت سفر قریب ہے

وقت سفر قریب ہے بستر سمیٹ لوں . بکھرا ہوا حیات کا دفتر سمیٹ لوں . پھر جانے ہم ملیں نا ملیں ، ذرا رکو ! میں دل کے آئینے میں یہ منظر سمیٹ لوں . غیروں نے جو سلوک کیے انکا کیا گلہ ، پھینکے ہیں دوستوں نے جو وہ پتھر سمیٹ لوں . اَجْمَل بھڑک رہی ہے زمانے میں جتنی آگ ، ، جی چاہتا ہے سینے کے اندر سمیٹ لوں . . ،

کہیں مت جائو

تم یہاں ہو اور کہی مت جاو تم میری آخری سسکی تک ٹھہرو اور مجھ سے کسی خوف زدہ شخص کی طرح لپٹ جاو کہ کبھی ایک اجنبی سایہ تمہاری آنکھوں سے گزرا تھا اب بھی ہاں ابھی بھی تم میرے لئے شہد آشام بنتی ہو تمہارے پستانوں میں اس کی خوشبو رچی ہے جس لمحے اداس ہوا تتلیوں کا قتل کرتے گزرتی ہے میں تم سے محبت کرتا ہوں میری مسرت تمہارے ہونٹوں کے میٹھے پھل چکھتی ہے تم نے کس قدر میری عادی ہوجانے کا دکھ سہا ہوگا میری وحشی تنہا روح میرا نام جسے سب چھوڑ جاتے ہیں کئی بار ہم نے صبح کے بجھتے ستارے کو ہماری آنکھیں چھومتے دیکھا ہمارے سروں پر مٹیالی روشنی کو ہوا میں ڈھلتے دیکھا میرے الفاظ تم پر بارش بن کر برسے طویل عرصے تک میں نے تمہارے بدن کے چمکتے سیپ سے محبت کی میں اکثر سوچتا ہوں تم میری ساری کائنات ہو میں تمہارے لئے پہاڑوں سے مسکراتے پھول نیلے سوسن ٫ گہری دھند اور بوسوں سے بھری ٹوکریاں لاؤں گا میں تمہارے ساتھ وہ کرنا چاہتا ہوں جو بہار چیری کے سفید درختوں سے کرتی ہے ~ پابلو نیرودا ( چلی ) مترجم ~ ذاہد امروز

شعور

مولانا جلال الدین رومی نے خوبصورت ترین بات کی کہ   شعور  کا پہلا درجہ خاموش رہنے کی عادت                             اور دوسرا درجہ  بدتمیزی کا جواب نہ دینا اور تیسرا درجہ بد اخلاقی  کا جواب  اَخلاق سے دینا ہے

نظم

ہر نئے سال کی آمد پہ یہ خوش فہم ترے  پھر سے آراستہ کرتے ہیں در و بام اپنے  پھر سے واماندہ ارادوں کو تسّلی دینے  ہم بھُلا دیتے ہیں کچھ دیر کو آلام اپنے  گُل شدہ  شمعوں کو ہم پھر سے جلا دیتے ہیں  پھر سے ویرانئی قسمت کو دعا دیتے ہیں یوں ہی ہر سال مرے دیس کی بے بس خلقت  پھر سے ادوار کے انبار میں دب جاتی ہے  خود فریبی کے تبسّم کو سجا لینے سے  شدّتِ کرب بھلا چہروں سے کب جاتی ہے  منزلِ شوق کا اب کوئی بھی دلدادہ نہیں  وہ تھکن ہے کہ مسافر سفر آمادہ نہیں  اک نظر دیکھ یہ انبوہ دَر انبوہ غلام  جو فقط شومئی تقدیر سے وابستہ ہیں  اِن کو کچھ بھی تو بجز وعدۂ فردا نہ ملا  یہ جو خود ساختہ زنجیر سے پابستہ ہیں  اِن کا ایک ایک نفس رہن ہے اغیار کے پاس  اب تو غمخوار بھی آتے نہیں بیمار کے پاس    احمد فراز

قطعہ

خوابِ دیرینہ سے رخصت کا سبب پوچھتے ہیں چلئے پہلے نہیں پوچھا تھا تو اب پوچھتے ہیں کیسے بے مہر ہیں اس شہرِدل آزار کے لوگ موجِ خوں سر سے گزر جاتی ہے تب پوچھتے ہیں افتخارؔ عارف